ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت

دنیا جس ٹیکنالوجی پر نظریں جمائے ہوئے ہے اُس میں ’خودکار آلات (روبوٹس)‘ کا عمل دخل بڑھ رہا ہے‘ یہ آلات بہت سے افعال سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اِنہیں جس کام پر بھی لگایا جاتا ہے یہ بلاتھکان اُسے کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ روبوٹس کے ذریعے جراحت (سرجری) اور علاج معالجہ ہو رہا ہے۔ روبوٹ گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ روبوٹ کے ذریعے خودکار ٹیکسی اور اشیاء کی گھر گھر فراہمی کا نظام متعارف کروا دیا گیا ہے لیکن روبوٹس تیاری سے متعلق اب تک کی تحقیق کا سب سے نمایاں اور حیرت انگیز پہلو (نچوڑ) یہ ہے کہ ”مشینوں کو مصنوعی ذہانت سے لیس کیا جا رہا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ انسانی زندگیوں اور معاشروں کے ساتھ زیادہ مربوط (ہم آہنگ) ہوجاتی ہیں۔ روبوٹ انسانی سرگرمیوں اور انسانی طرز عمل کی ہوبہو اور بار بار نقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ مشینوں سے غلطیاں بھی سرزد ہو سکتی ہیں لیکن اِن غلطیوں کو کم سے کم کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت کا اِستعمال کیا جا رہا ہے جو اِن روبوٹس مشینوں کو اِنسانوں کی طرح فیصلہ سازی جیسا کا اِختیار بھی دے دیتی ہیں۔ ”ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت …… اِحساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات (علامہ اقبالؒ)۔“زیادہ تر اِنسانوں کے پاس یہ جاننے کا تجربہ یا تربیت (صلاحیت) ہوتی ہے کہ وہ کہاں‘ کب اور کیسے غلطی کرتے ہیں اور اپنی یا دوسروں کی غلطیوں کے نتائج پیش نظر رکھتے ہوئے اصلاح (درستگی) کرتے ہیں۔ ازخود سیکھنے سے متعلق یہ انسانی نفسیات کا خاصا دلچسپ‘ منفرد اور پیچیدہ پہلو ہے جسے مشینوں میں منتقل کرنے کا عمل ”مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس)“ کہلاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت متعارف ہونے کے بعد اب مصنوعی ذہانت کی ترقی یافتہ شکل یہ ہے کہ ”مشینوں کو طرزحکمرانی میں اصلاحات‘ امانت و دیانت اور صداقت و ایمانداری جیسے اصولوں کے فروغ کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔“ ایک طویل عرصے تک لفظ ”شعور“ کو مشینوں کے ساتھ جوڑنا ناقابل عمل تصور سمجھا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ ایک وقت تھا جب مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کام کرنے والے لوگ شعور کے لفظ کے استعمال سے گریز کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مشینیں تو مشینیں ہی ہوتی ہیں اِن کا عقل مندی یا سوجھ سے کیا تعلق لیکن آج صورتحال مختلف ہے اور روبوٹس اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور اپنی غلطیوں کی ازخود اصلاح بھی کر سکتے ہیں کیونکہ اُنہیں دیگر امور کی طرح ”شعور“ بھی سکھا 
دیا گیا ہے۔ یہ ایک قسم کی ”سپر کمپیوٹنگ“ ہے جسے تیار کرنے میں چین پیش پیش ہے لیکن اِسے کئی ممالک بالخصوص امریکہ کی مخالفت کا سامنا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کی سربراہی میں انتظامیہ نے چین کو سپر کمپیوٹنگ کی سمت میں آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے جو چند نمایاں اقدامات کئے ہیں ان میں اِس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ ”مصنوعی ذہانت“ کو ایک خاص حد سے زیادہ ترقی نہ دی جائے۔ کیا دنیا چین کا مقابلہ کرنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہی ہے؟امریکہ کی معروف سافٹ وئر کمپنی ”مائیکروسافٹ“ کی جانب سے سان فرانسسکو میں قائم ایک چھوٹی سی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد سے مصنوعی ذہانت کی اصطلاح نے کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ ابتدائی طور پر اسے ”چیٹ جی پی ٹی“ کہا جاتا تھا جو پچھلے سال کے آخر میں سرمایہ کاری برادری کے علم میں آیا تھا۔ مائیکروسافٹ کے سربراہ ستیہ نڈیلا ہیں‘ جو بھارتی نژاد انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) امور کے ماہر ہیں۔ پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کے بعد نڈیلا نے ”اوپن اے آئی“ کو کمپیوٹنگ کی بڑی مقدار سے لیس کرنے کے لئے مزید 2 ارب ڈالر کا اضافہ کیا‘ جسے ’چیٹ بوٹ‘ کہتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ”مائیکروسافٹ اب گوگل‘ ایمازون اور ایپل جیسی بڑی ٹیک کمپنیوں کا مقابلہ (چیلنج) کرنے کے لئے تیار ہے“ یہ استعداد مائیکروسافٹ کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے حاصل نہیں تھی۔ بھارت کے دورے کے دوران نڈیلا نے اعلان کیا تھا کہ وہ ”اوپن اے آئی“ کے ذریعے متعارف ہونے والی مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کے لئے مزید 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے اور اِس سلسلے بات چیت ہو بھی رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی ایک کمپنی کی جانب سے بارہ ارب ڈالر سے زائد سرمایہ مصنوعی ذہانت میں لگانے سے کمپیوٹروں کے سوچنے سمجھنے کی استعداد بڑھے گی لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ کی کمپنیاں چین کی مصنوعی ذہانت 
کے میدان میں بالادستی کم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ مذکورہ ”چیٹ جی پی ٹی“ کسی بھی سوال کا جواب ازخود تلاش کر کے اور تحریر کر کے دیتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے حتیٰ کہ شاعری بھی لکھ سکتا ہے اور کم و بیش سبھی موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اِس سب سے نمایاں مثال کو ”جنریٹیو مصنوعی ذہانت“ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اِس کے ذریعے متن (ٹیکسٹ)‘ تصاویر (امیجز) اور دیگر میڈیا (ملٹی میڈیا) مواد بنایا جا سکتا ہے۔ نئی تخلیقی مصنوعی ٹیکنالوجیز گوگل جیسے آن لائن سرچ انجن کی مدد سے بھی ہر چیز کو نئے سرے سے تشکیل دے سکتی ہیں۔ یہ نظام الیکس اور سری جیسے ڈیجیٹل معاونین کو مزید آگے بڑھائے گا جو زیادہ پیچیدہ سوالات کے جوابات دے سکتے ہیں۔ نڈیلا نے بھارت میں مختلف تقاریب سے خطاب کیا اور اِس دوران اُنہوں نے بتایا کہ ”یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ تخلیقی ماڈل کس طرح انسانی تخیلات پر قبضہ کر رہا ہے اور حاوی ہو رہا ہے“ اُنہوں نے اِسے ”سنہری دور“ سے بھی تعبیر کیا۔پاکستان کی آبادی ایک اندازے کے مطابق ساڑھے بائیس کروڑ ہے جس کے نصف سے زیادہ حصہ موبائل ٹیلی فونز تک رسائی یا پرسنل کمپیوٹرز کا وسیع استعمال کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے علوم اور استعمال کے تکنیکی پہلوؤں کے بارے میں تربیت کی انتہائی ضرورت ہے۔ فیصلہ ساز اگر بھانپ سکیں تو مصنوعی ذہانت کے شعبے میں آئی ٹی برآمدات ملک کی مجموعی برآمدات سے زیادہ ہو سکتی ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے‘ حکومتی پالیسی کو نجی کاروباری اداروں سے مربوط کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کے لئے تربیتی مراکز بنانے ہوں گے اور چونکہ پاکستان پہلے ہی چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا شراکت دار ہے اِس لئے چین کے ساتھ مصنوعی ذہانت سے متعلق ٹیکنالوجی کی پاکستان منتقلی اور ہم آہنگی پیدا کرنے پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے تصورات نئے نہیں بلکہ سرکاری و نجی جامعات میں یہ مضامین پڑھائے جا رہے ہیں اور اگر انٹرنیٹ کی مدد سے ذریعے تدریسی مواد تک رسائی حاصل کی جائے تو ایسا بہت کچھ ’مفت دستیاب‘ ہے جو پاکستان میں درس و تدریس اور روزگار کی ایک ایسی ’نئی منڈی‘ تشکیل دے سکتا ہے‘ جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کرہئ ارض پر انسان کے مستقبل کے تحفظ اور ماحول دوستی کے فروغ کا باعث بن سکتی ہے۔