معروف امریکی جامعہ (ہارورڈ یونیورسٹی) کے سابق صدر ڈیرک بوک سے منسوب کہاوت ہے کہ ”اگر آپ کو لگتا ہے کہ تعلیم مہنگی ہے تو اِس کے مقابلے جہالت کہیں گنا زیادہ مہنگی ہے‘ آزمائش شرط ہے۔“ پاکستان کا تعلیمی منظرنامہ زیادہ پرکشش نہیں۔ عالمی معیار (پیمانہ) یہ ہے کہ کسی ملک کی مجموعی قومی آمدنی (جی ڈی پی) کا کم سے کم چار فیصد تعلیم پر خرچ ہو جبکہ پاکستان ہر سال اپنی قومی آمدنی کا قریب 2۔3 فیصد تعلیم کے لئے مختص کرتا ہے اور اِس مختص شدہ بجٹ کا بڑا حصہ اساتذہ و دیگر عملے کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہو جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ حصہ مکمل طور پر تعلیم پر خرچ نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیائی آٹھ ممالک (افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ بھارت‘ مالدیپ‘ نیپال اور سری لنکا) میں پاکستان اپنی مجموعی قومی آمدنی کا سب سے کم تناسب تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ تعلیمی اداروں پر ہونے والے ناکافی اخراجات کی بنیادی وجہ اِس شعبے کی سرکاری سرپرستی میں عمومی عدم دلچسپی جیسے قابل اصلاح محرکات ہیں۔ ’سٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (سالانہ جائزے)‘ کے مطابق پاکستان میں مجموعی شرح خواندگی ساٹھ فیصد ہے جس میں مردوں کی شرح خواندگی 71فیصد ہے جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 49فیصد ہے لیکن جب ہم شرح خواندگی اور انسانی ترقی کے اعدادوشمار کا موازنہ کرتے ہیں تو 71 فیصد شرح خواندگی سے خاطرخواہ بہتری حاصل نہیں ہو رہی۔ تعلیمی اداروں میں داخلے کا تناسب اور تعلیمی اخراجات سے متعلق اہم تعلیمی اشارئیوں میں ہر سال خاطرخواہ (نمایاں) بہتری دیکھنے میں نہیں آ رہی اور یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) ہر سال ”ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس“ ترتیب دیتا ہے جس کے مطابق 189 ممالک میں پاکستان 152ویں نمبر پر ہے۔تین دسمبر دوہزاراٹھارہ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال ’چوبیس جنوری‘ کے روز تعلیم کا عالمی دن (انٹرنیشنل ڈے آف ایجوکیشن) منانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد سے ہر سال اقوام متحدہ کے ’193 رکن ممالک‘ اِس دن کو باقاعدگی سے منا رہے ہیں اور اِس دن سے متعلق تقاریب اور مختلف رکن ممالک کی تعلیمی صورتحال پر اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسکو (یونائٹیڈ نیشنز ایجوکیشنل‘ سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن) نظر رکھتی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی شعبے کا خطے کے دیگر ترقی پذیر ممالک سے موازنہ ایک مایوس کن تصویر پیش کرتا ہے کیونکہ پاکستان معیاری تعلیم کی فراہمی کی کوششوں میں پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان خطے میں پرائمری سکول چھوڑنے کی تیسری سب سے بڑی شرح رکھتا ہے اور اِس 23فیصد طلبہ کے سکول چھوڑنے میں بنگلہ دیش اور نیپال سے پیچھے ہے۔ گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ کی سالانہ رپورٹ بعنوان ”تعلیم پائیدار مستقبل کی تخلیق“ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شعبہ تعلیم سے متعلق اصلاحات کی رفتار کم ہے جبکہ پاکستان ابتدائی (پرائمری) تعلیم کے میدان میں دنیا سے پچاس سال پیچھے جبکہ ثانوی تعلیم میں دنیا کے مساوی ہونے میں پاکستان کو مزید دس سال لگیں گے۔ پاکستان میں تعلیم کی سطح بلند کرنے کے لئے پالیسی سازوں زیادہ سے زیادہ توجہ پرائمری سکولوں میں داخلوں کی شرح بڑھانے پر مرکوز کرنا ہوگی اگرچہ پرائمری تعلیم پر پہلے ہی زیادہ زور دیا گیا ہے لیکن سرکاری پرائمری تعلیمی اداروں کا معیار بڑھانے اور نجی تعلیمی اداروں میں پرائمری تعلیم کے اخراجات کم کرنے پر بہت ہی کم توجہ دی گئی ہے۔ سرکاری سکولوں میں درس و تدریس کا عمل جس معیار پر فائز ہے وہ اخراجات کے مقابلے حیرت انگیز طور پر کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو اگر طلبہ کی خواندگی کے زاویئے سے دیکھا جائے تو یہ بہت ہی کم (غیرتسلی بخش) ہے۔ عوامی تعلیم میں اس کمی کی بنیادی وجہ سرکاری شعبے کے اساتذہ کے لئے مراعات کی کمی بتائی جاتی ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ تدریس کے عمل میں زیادہ محنت و کوشش نہیں کرتے۔ اِسی طرح ادارہ جاتی ترقی اور مراعات سے متعلق بھی اساتذہ تحفظات کا اظہار کرتے ہیں‘ جنہیں دور کئے بغیر تعلیم کا معیار بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ ہیومن رائٹس واچ کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے تحت پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا شمار کیا گیا ہے۔ ملک گیر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کو مناسب تعلیم نہیں مل رہی‘ جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لڑکیاں اپنی عمر کے مطابق تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں (روایتی و غیرروایتی درسگاہوں) سے رجوع نہ کرنے والے دو کروڑ پچیس لاکھ بچوں میں اکثریت لڑکیوں کی ہے اور اِس سلسلے میں ریاست غیر منصفانہ نقطہ نظر تبدیل ہونا چاہئے۔ تعلیمی اداروں میں ناکافی سرمایہ کاری کی وجہ سے لڑکیوں کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہ رہی ہے۔ دوسری اہم بات لڑکیوں کے لئے پرائمری سکولنگ کے بعد تعلیمی مواقع خاطرخواہ زیادہ ہونے کی بجائے کم ہو جاتے ہیں۔ آئین کے تحت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرائمری کی سطح تک مفت تعلیم دے لیکن عملاً ایسا نہیں ہو رہا اور زیادہ تر والدین مالی وسائل کی کمی کے باعث اپنی بیٹوں کی تعلیم کو بیٹیوں کی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں اور جب کوئی لڑکی ایک مرتبہ سکول سے نکل جائے تو تعلیمی سال ضائع ہونے کی وجہ سے اُسے دوبارہ داخلہ نہیں ملتا۔ کورونا وبا نے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ فروری دوہزاربیس کے آغاز سے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی مجبوراً بندش کے بعد چھ ماہ تک تعلیمی عمل احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) کی وجہ سے متاثر رہا۔ پھر کورونا وبا کی دوسری لہر کے باعث بھی تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے اور اِن دونوں محرکات کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو نقصان کا سامنا رہا۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جس میں پہلے ہی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کورونا وبا کے باعث مزید پستی کا شکار ہوا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ بعنوان ”کورونا وبا اور سکولوں کی بندش“ میں پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے درسی و تدریسی عمل کو پہنچنے والے نقصانات کا تفصیلاً احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کی پابندیوں کے باعث 9 لاکھ 30ہزار بچوں تعلیم کو خیرباد کہا جس کی وجہ سے پاکستان میں سکولوں کو نہ جانے والے بچوں کے تناسب میں 4۔2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی شعبے کو مضبوط بنانے کے لئے اصلاحات کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی پالیسیوں میں سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرنے‘ طالب علموں کے اندراج میں اضافے اور اعلی تعلیم تک رسائی کے بہتر مواقعوں کی فراہمی سمیت ”قومی تعلیمی اشارئیوں“ میں بہتری ناگزیر ہے۔ تعلیمی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے تعلیمی ترقی کے منصوبوں اور عملی اقدامات کے درمیان موجود خلا پر کرنا بھی یکساں اہم اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔