چھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیئے گئے مقامات اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو (K2)‘ رکھنے والی سرزمین کے طور پر جانا جانے والا ”پاکستان“ منفرد ملک ہے جس میں آثار قدیمہ‘ ثقافتی اور سیروتفریح سے بھرپور جنت نظیر وادیاں اور پہاڑوں جیسے خزانے موجود ہیں جنہیں ترقی دے کر ملک کی معاشی اور مالی مشکلات کم کی جا سکتی ہیں بالخصوص ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اگر پاکستان کے سیاحتی مقامات کی مناسب ابلاغ (پروجیکشن) کی جائے تو اِس سے سیاحت کا فروغ ممکن ہے۔ سندھ میں آثار قدیمہ کے عجائب موئن جودڑو‘ تخت بھائی کے بدھ مت کے کھنڈرات‘ مردان اور ٹیکسلا کے سحری بہلول میں موجود بدھ مت کے کھنڈرات‘ قدیم سندھ و گندھارا تہذیبیں‘ آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند پانچ بلند پہاڑی چوٹیاں جن میں دنیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ’کے ٹو (8611میٹر) اور دنیا کی سات ہزار میٹر سے زیادہ بلند ترین دیگر پہاڑی چوٹیاں شامل ہیں۔ چترال میں کیلاش ثقافت و متعدد تاریخی یادگاریں سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔ پاکستان سیاحت سے سالانہ اوسطاً آٹھ ارب ڈالر حاصل (آمدنی) حاصل کرتا ہے جسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ’ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل‘ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ”پاکستان کو سالانہ سیر و سیاحت کے شعبے سے اوسطاً آٹھ ارب ملتے ہیں جبکہ دوہزاراُنیس میں یہ آمدنی بڑھ کر پندرہ ارب ڈالر ہو گئی تھی جبکہ سال دوہزاربیس میں گیارہ ارب ڈالر اور اُس کے بعد سے کم ہو رہی ہے۔ سیاحت میں کمی کا مطلب اِس صنعت سے وابستہ ملازمتی مواقعوں میں کمی ہونا ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں چھتیس سے چالیس لاکھ افراد کا روزگار براہ راست سیاحت سے وابستہ ہے۔ ملک کے شمالی علاقوں کی بات کی جائے تو چھ عالمی آثار قدیمہ مقامات‘ ثقافتی ورثہ اور بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کو خاص طور پر ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے پیش کیا جائے تو اِس سے معاشی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی اور پاکستان کی سیاحتی صلاحیت کو اُجاگر کیا جا سکے گا۔ بیرون ملک سیاحتی صنعت کے فروغ بالخصوص شمالی خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں مواصلات کا اچھا انفرسٹرکچر یقینی بنانے کے لئے ڈیجیٹل پروفیشنلز اور ماہرین کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جو ’مہم جوئی (ایڈونچر)‘ اور ’پہاڑی کھیلوں (ماؤنٹین سپورٹس)‘ کو عالمی معیار کے مطابق دنیا بھر میں متعارف کروا سکتے ہیں۔ پاکستان موسم سرما کے کھیلوں کے لئے سب سے موزوں ملک ہے خاص طور پر نلاتھر گلگت بلتستان اور مالم جبہ (سوات) میں برف پر پھسلنے (سکیئنگ)‘ خیبر پختونخوا کی وادیوں سوات‘ ناران‘ کاغان و گلگت بلتستان اور دیگر علاقے قدرتی طور پر خوبصورت ترین مقامات میں شمار ہوتے ہیں‘ جہاں تازہ پانیوں میں مچھلی پکڑنا‘ تیز رفتار اور غیر ہموار پانیوں میں کشتی رانی (رافٹنگ) کا کھیل‘ ہوا کے دوش پر تیرنا (پیرا گلائیڈنگ) اور برف باری والے علاقوں میں کھیل غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں اِن کھیلوں کے سالانہ مقابلوں کا انعقاد ہوتا ہے لیکن پاکستان اِن کا بطور میزبان حصہ نہیں۔ ”ڈیجیٹل سیاحت“ کی صورت تشہیر کے نسبتاً آسان و مؤثر وسائل کی موجودگی میں اِس دور جدید کی ٹیکنالوجی سے فائدہ (استفادہ) ہونا چاہئے کیونکہ عالمی سطح پر ڈیجیٹل سیاحت سفری اور مہمان نوازی کی صنعت کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہے اور اب کسی ملک یا معاشرے کے بارے میں پائے جانے والے منفی تصورات یا آرأ کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا حکمت عملی اور پالیسیوں کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی ملکی و غیرملکی رائے عامہ تبدیل کی جا سکتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ سائنسی ترقی اور برق رفتار تکنیکی مواصلاتی ایجادات نے عملی طور پر دنیا کو ایک شہر (گلوبل ویلیج) میں تبدیل کر رکھا ہے۔ قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان کے سیاحتی مقامات کو دنیا کے سامنے جدید مواصلاتی آلات‘ آئی ٹی ٹولز اور ایپس (apps)کے استعمال زیادہ مؤثر طریقے سے پیش کیا جاسکتا ہے۔خیبرپختونخوا میں ”سیاحتی ترقی“ کے لئے کوششوں‘ اقدامات یا اصلاحات کا آغاز سوات میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ معیشت و معاشرت کی بحالی سے ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر خیبرپختونخوا کے ضلع سوات (مالاکنڈ ڈویژن) میں چھبیس اگست دوہزاربائیس کے روز آئے تباہ کن سیلاب سے تحصیل بحرین اور مٹہ میں 237 نجی ٹراؤٹ مچھلی فارم ہاؤسز اور 2 سرکاری ہیچریاں بہہ گئیں تھیں جن کی تاحال بحالی اور مچھلی فارمنگ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی امداد نہیں کی گئی ہے۔ سیلاب سے اربوں روپے کے انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کے ساتھ لاکھوں روپے مالیت کی نایاب مچھلیاں بھی ضائع ہوئیں ہیں اور اِس شعبے سے وابستہ سینکڑوں مزدور بے روزگار ہیں۔ ضلع سوات کے محکمہ ماہی پروری کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق حالیہ سیلاب سال 2010ء میں آئے سیلاب سے تین گنا زیادہ بڑا (طاقتور) تھا اِس بدترین سیلاب سے 237 ٹراؤٹ فارمز متاثر ہوئے ہیں، 80 فیصد فارمز کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے جبکہ ان میں سے 20 فیصد کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تاہم اِن فارموں میں موجود پندرہ ہزار میٹرک ٹن ٹراؤٹ مچھلی بہنے سے نقصانات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ سوات میں موجود دو سرکاری ہیچریاں (قدرتی پانیوں میں مچھلیوں کی افزائشگاہیں) بھی محفوظ نہیں رہیں اور لاکھوں نایاب مچھلیاں سیلاب میں بہہ چکی ہیں اگر حکومت توجہ دے تو سیلاب سے تباہ ہوئے مچھلی فارموں کو چار سے چھ ماہ میں بحال کیا جا سکتا ہے لیکن مچھلی فارمز سے ٹراؤٹ مچھلی کی فراہمی شروع ہونے میں دو سے ڈھائی سال لگیں گے۔ سوات کی ٹراؤٹ مچھلی وہاں کی سیاحت کا لازمی جز ہے جبکہ سوات سے ملک کے مختلف حصوں کو مچھلی کی فراہمی کی جاتی ہے اور اِس کاروبار سے سینکڑوں خاندان وابستہ ہیں جو گزربسر کے لئے قرض لینے پر مجبور ہیں۔ ”ٹراؤٹ فش فارمنگ“ نے سوات میں سیاحت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پکنک مقامات پر ٹراؤٹ فش فارمز کے درجنوں ریسٹورنٹس قائم ہوئے۔ سواتی ٹراؤٹ منفرد ذائقے کی وجہ سے پسند کی جاتی ہے اور سیاحوں کے لئے ٹراؤٹ مچھلی فارمز کا دورہ بھی سیاحتی کشش کا حصہ ہے۔