لگتاہے کہ بحرانوں نے ہمار ے گھر کی راہ دیکھ لی ہے ویسے تو 2018ء کے انتخابات کے بعد سے سیاسی عدم استحکام سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہے ہیں تاہم گذشتہ ایک سال سے صور تحال پیچیدہ ہوتی جارہی ہے جب سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس کو بیرونی سازش کا نام دیتے ہوئے اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے ایک بھرپور مہم چلائی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعداسے آئینی عمل کاحصہ سمجھنے کے بجائے عالمی سازش کے بیانیہ کی ہانڈی چڑھائی گئی اور اس بیانیہ کو جو قبولیت حاصل ہوئی اس کاثبوت پھر پہلے مرحلہ میں پنجاب اسمبلی اوربعد ازاں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے نتائج میں سب کے سامنے آچکاہے‘اپریل سے جنوری تک کے نو ماہ کے دورا ن ملک بحران دربحران کی کیفیت میں مبتلا چلا آرہاہے سیاسی مخالفت کی خلیج کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے فواد چودھری کی گرفتاری سے سیاسی تلخیوں میں مزید شدت آچکی ہے ان حالات میں ملکی معیشت کاجو حال ہوتاجارہاہے وہ سب کے سامنے ہے ڈالر اب کسی کے قابو میں نہیں رہا بجلی کے بعدپیٹرول کے بحران نے خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں فنانشل ٹائمزنے جس طرح معیشت کے ڈوبنے کاخدشہ ظاہر کیاہے اس کے بعدتو اب صور تحال حددرجہ سنجیدگی اور مفاہمت کی متقاضی ہوچکی ہے کم سے کم سے میثاق معیشت ہی کے معاملہ میں اتفاق رائے کے لئے کوئی راستہ نکالا جائے تو قوم کو کسی حد تک ریلیف مل سکتی ہے ان حالات میں ملک کی دوصوبائی اسمبلیاں تحلیل کی جاچکی ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی بھی ایک سو بیس سے زائد نشستیں خالی ہوچکی ہیں پی ٹی آئی کے بقول پارلیمان میں 64فیصد نشستیں خالی ہوچکی ہیں پی ٹی آئی کااستدلال ہے قبل ازقت الیکشن ہی مسائل کاحل ہے اس لئے اس نے اپنی دونوں حکومتیں ختم کرتے ہوئے دونوں صوبائی اسمبلیاں بھی توڑ دی ہیں قومی اسمبلی سے وہ پہلے ہی مستعفی ہوچکی تھی اس لئے اس کاسارا زور اسی بات پرہے کہ ملک میں ہر صورت قبل ازوقت الیکشن کی راہ ہموار کی جائے تاہم جب اس نے یہ محسوس کیاکہ عام انتخابات سے قبل جو نگران وفاقی حکومت بنے گی تو اس کے لئے مشاورت وزیراعظم شہبازشریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کے درمیان ہوگی تو اس نے ہنگامی بنیادوں پر اسمبلی میں واپسی کی کوششیں شروع کردیں حالانکہ اس سے قبل عدالت عظمیٰ نیب اصلاحات کیس میں باربارپی ٹی آئی پرزور دیتی رہی ہے کہ وہ پارلیمان جاکر اپنا کرداراداکرے مگر اس وقت پی ٹی آئی نے عدالت کی ایک نہ سنی مگر جب نگران حکومت کی تشکیل کے تناظر میں کردار کے حصول کیلئے پارلیمان میں واپسی پر تیار ہوئی تو تب وفاقی حکومت اس کی راہ میں حائل ہوگئی حالانکہ اس سے پہلے وفاقی حکومت پی ٹی آئی کے ا جتماعی استعفوں کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے واضح کرتی رہی ہے کہ جب تک ہر رکن اسمبلی انفرادی طورپر سپیکر کے سامنے پیش ہوکر اپنے استعفے کی تصدیق نہ کرے تب تک استعفے قبول نہیں کئے جائیں گے اور جب پی ٹی آئی اراکین تصدیق کے لئے سپیکر کے پاس جاتے تھے تو سپیکر ملاقا ت کے بجائے ان کو ٹرخادیتے تھے اورپھر جب پی ٹی آئی نے استعفے واپس لینے تگ و دو شرو ع کردی تو تب بھی سپیکر ہاتھ نہ آئے اورپھر تین مراحل میں باقی ماندہ تمام استعفے منظور کرکے عملی طورپر پی ٹی آئی کاقومی اسمبلی سے صفایا کردیا‘پی ٹی آئی اپنی جلد بازی کی بدولت ملک کے سب سے بڑے صوبہ کی حکومت بھی گنوا چکی ہے جس کے بعد نگران وزیرا علیٰ کے معاملہ پر عدم اتفاق کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے جس شخص کو نگران وزیراعلیٰ نامزدکیاگیاہے پی ٹی آئی روز اول سے اس کی مخالفت کرتی چلی آرہی ہے‘ جہاں تک ہمارے صوبہ کاتعلق ہے تو یہاں اگر چہ نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق رائے تو ہو ا اوراس کی بڑی وجہ نگران وزیر اعلیٰ کی اپنی شخصیت ہی ہے تاہم جب نگران کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ آیاتو پی ٹی آئی کو مکمل طورپر نظرانداز کرتے ہوئے پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کو بھرپور نمائندگی دی گئی نگران کابینہ میں جے یو آئی،اے این پی،کیوڈبلیو پی،مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے لوگ شامل کئے گئے ہیں نگران وزیر اعلیٰ کی طرف سے تین نام دیئے گئے تھے ان میں سے شکیل درانی نے تو معذرت کرلی سید مسعود شاہ نے وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھالیاہے تاہم حمایت اللہ خان کو مشیر بنایاجارہاہے‘پی ٹی آئی نے یہاں کی کابینہ کو مسترد کردیاہے اور اب غالب امکان ہے کہ اس کے خلاف احتجاج کااعلان کیاجائے گا پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر تو الیکشن کاشیڈول جاری کردیاگیاہے تاہم فی الوقت دونوں صوبوں میں الیکشن کے لئے شیڈول ترتیب نہیں دیاجاسکاہے حکومت کی خواہش ہے کہ دونوں صوبوں کے انتخابات تاخیرکاشکار ہوجائیں اس کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کرتے ہوئے ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن کرانے کی استدعا کی جائے گی گویا ملک میں جاری بحران دربحران کی فضا ختم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے حالانکہ قومی قیادت کافرض بنتاہے کہ رابطوں کے منقطع سلسلے کو بحال کرتے ہوئے کچھ لو کچھ دو کے اصول کے تحت ملک کو بند گلی سے نکالنے کیلئے کردار ادا کرے کیونکہ جس سمت میں ملکی معیشت جارہی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے‘ معیشت کی بحالی کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے جس کیلئے سیاسی مکالمہ لازمی ہے ہم نے جب بھی سیاسی مکالمے کاراست بند کیا تو بحرانوں کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ تمام ترتلخیوں کے باوجود جب ضرورت محسوس ہوئی تو پی این اے اور پی پی پی کی قیادت مذاکرات کی میز بیٹھ گئیں جنرل ایوب خان نے بھی آخری دنوں میں اپوزیشن کیلئے سیاسی مکالمہ کی راہ اختیار کی تھی اور اسی وجہ سے پھرپرامن انتقال اقتدا رممکن ہوسکاتھا سو ہمیں اپنی سیاسی تاریخ سے ہی کچھ سبق حاصل کرناچاہئے‘اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی مکالمہ سے ر اہ فراراختیار کرناہی ہے۔