جب بھی کبھی کرکٹ تاریخ کے نامور بلے بازوں کا ذکر آتا ہے تو پاکستان کے مایہ ناز اور ریکارڈ ساز کھلاڑی ظہیر عباس کا ذکر اس میں ہمیشہ شامل ہوتا ہے‘ ان کی شخصیت اور کھیل کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں‘حالیہ دنوں میں وہ جن مشکلات اور بیماریوں سے دوچار رہے اس سے کرکٹ کی دنیا میں پریشانی پھیل گئی‘ پھر دعا کے ساتھ ساتھ دوا نے بھی اپنا کام کیا اور وہ ڈھائی ماہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد اسپتال سے لندن کے اپنے گھر پہنچے۔ اب تو صحت اس قدر بہتر ہوچکی ہے کہ وہ لندن سے کراچی بھی آچکے ہیں‘گزشتہ سال جون کے مہینے میں ظہیر عباس دورہ دبئی کے دوران کورونا کا شکار ہوئے اور جب وہ صحتیاب ہوکر لندن گئے تو نمونیہ کا شکار ہوگئے‘ لیکن ظہیر عباس نے ان مشکلات کا بھی اسی طرح ڈٹ کرمقابلہ کیا جس طرح وہ مشکل سے مشکل باؤلنگ کا مقابلہ کرتے تھے‘ وہ لوگوں کی دعاؤں کے اثر کو بھولے نہیں اور اکثر ذکر کرتے ہیں کہ لوگوں کی دعائیں کام آگئیں‘دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی اور بھارت کے سابق کپتان سنیل گواسکر بھی ان کی عیادت کیلئے آئے‘ ظہیر عباس ایشیا کے پہلے اور جیفری بائیکاٹ کے بعد دنیا کے دوسرے بیٹسمین ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچ کھیلتے ہوئے 100 سے زائد فرسٹ کلاس سنچریاں بنائیں‘ اسی طرح ظہیر عباس دنیا کے واحد بلے باز ہیں جنہوں نے 4 فرسٹ کلاس میچوں کے دوران ایک اننگ میں سنچری اور 2 اننگ میں ڈبل سنچریاں بنائیں اور آٹھوں اننگز میں کوئی انہیں آؤٹ نہیں کرسکا۔ظہیر عباس نے 78 ٹیسٹ میچوں میں 12 سنچریاں اور 20 نصف سنچریاں اسکور کیں اور 44.79 کی اوسط کے ساتھ ٹیسٹ کیریئر میں 5 ہزار 62 رنز اسکور کئے وہ ایک روزہ کرکٹ میں دنیا کے پہلے بلے باز ہیں جنہوں نے3لگاتار سنچریاں بنائیں انہوں نے ون ڈے کیریئر میں 62 میچ کھیلے جن میں 7 سنچریاں اور 13 نصف سنچریاں شامل ہیں‘ اس کے علاوہ انہوں نے ون ڈے کیریئر میں 47.62 کی اوسط سے 2 ہزار 572 رنز اسکور کئے۔ ظاہر ہے کہ یہ کارنامے انجام دینا کسی عام بلے باز کے بس کی بات نہیں ہے۔ظہیر عباس نے اپنی کاؤنٹی گلوسٹر شائر کے لئے کھیلتے ہوئے 49.79 کی اوسط سے 16 ہزار رنز بنائے اور 49 سنچریاں اور 76 نصف سنچریاں اسکور کیں جو کوئی معمولی بات نہیں ہے‘یہاں ظہیر عباس کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے‘ 1978 اور 1982 میں بھارت کے خلاف سیریز میں ظہیر عباس نے بھارت کے بالروں کی خوب مرمت کی‘ یہاں تک کہ بھارت کے سابق کپتان سنیل گواسکر کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ بھارت کے تمام کھلاڑی انہیں ظہیر عباس کہنے کے بجائے ظہیر اب بس کہنے لگے‘1971ء کے دورہ انگلینڈ کے دوران ایک صحافی نے جب ان کی بیٹنگ اور فارم کو دیکھا تو انہیں Asian Bradman کے خطاب سے نوازا۔ اس کے علاوہ انہیں 1971ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور 2018ء میں ستارہ امتیاز دیا گیا۔ظہیر عباس نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ اپنے ہوم گراؤنڈ سیالکوٹ میں سری لنکا کے خلاف کھیلا تھاہم سب کی دعا ہے کہ اللہ دنیائے کرکٹ کے شہرت یافتہ اور منکسر المزاج شخصیت کو سلامت اور صحت مند رکھے کیونکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مداحوں کو ان کی سلامتی اور صحت بہت عزیز ہے۔