پاکستان میں موٹروے سال 1997ء میں متعارف ہوئی‘ جس کے بعد سے اِس کی توسیع جاری ہے۔ فی الوقت کثیر رویہ ’موٹرویز (شاہراہیں) 2 ہزار 816 کلومیٹر طویل ہیں جبکہ 1 ہزار 213 کلومیٹر توسیعی منصوبے زیرغور یا زیرتعمیر ہیں یہی موٹروے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا بھی حصہ ہے جو چین کی سرحد (درہئ خنجراب) سے شروع ہو کر گوادر (بندرگاہ) تک تجارتی راہداری ہے۔ پاکستان میں کل 16موٹرویز کا خاکہ تیار کیا گیا جن میں سے 11 کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اِنہیں فعال کر دیا گیا ہے۔ موٹروے کے ہر حصے (سیکشن) کو انگریزی زبان کے حرف ’ایم (M) سے شناخت کیا جاتا ہے جبکہ ’ایم‘ کے ساتھ کسی عدد (نمبر) کا اضافہ اُس کی انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے جیسا کہ پشاور سے اسلام آباد (155 کلومیٹر) طویل موٹروے کو ’ایم ون (M-1)‘ کہا جاتا ہے یہ سال 2007ء سے فعال ہے۔موٹروے کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ’ہائی وے سیفٹی ٹرانسپورٹیشن انجینئرنگ‘ کو دیکھا جاتا ہے جو کسی بھی شاہراہ یا موٹر وے کا سب سے اہم پہلو ہوتا ہے کیونکہ اگر بناوٹ میں نقص نہ ہو تو ٹریفک حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں بنا رکاوٹ اور تیزرفتار سفر کیلئے موٹرویز کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے لیکن ’ہائی ویز‘ کو درپیش ’سیفٹی چیلنجز‘ خاطرخواہ توجہ سے حل نہیں کئے گئے اِس منظرنامے سے متعلق یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ موٹرویز کے ساتھ حفاظتی امور سے جڑے مسائل (سیفٹی چیلنجز) کی ایک نئی جہت سامنے آئی ہے۔ موٹرویز کے سیفٹی مینجمنٹ کا تقاضا یہ ہے کہ حرکت کی رفتار برقرار رکھتے ہوئے حفاظتی مسائل کو زیادہ محتاط طریقے سے حل کیا جائے موٹروے ہو یا کوئی عمومی شاہراہ‘ جن مقامات پر عموماً ٹریفک حادثات ہوتے ہیں‘ اُنہیں ”حادثاتی بلیک سپاٹس“ کہا جاتا ہے۔ یہ ’بلیک سپاٹس‘ تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے تخلیق پاتے ہیں جبکہ اِن کے دیگر محرکات (وجوہات) میں ڈرائیونگ میں مہارت کی کمی‘ ٹریفک قواعد سے متعلق خواندگی کی کمی‘ تیزرفتاری اور بے صبری کا عمومی قومی رجحان‘ ٹریفک سائن بورڈز کی کمی‘ جیومیٹرک ڈیزائن کے مسائل اور پیدل چلنے والوں یا موٹرویز کے اردگرد کھیتوں سے مال مویشوں‘ جانوروں کا موٹرویز عبور کرنا جو اِس کے نامناسب ڈیزائن کا عکاس ہے چند ایسے پہلو ہیں‘ جنہیں خاطرخواہ توجہ حاصل نہیں اگرچہ صارفین اِن کے بارے میں متعلقہ شعبوں کو شکایات درج کرواتے بھی ہیں لیکن غلطیوں کی اصلاح بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے اور پُرخطر موٹرویز پر سفری سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے انسانی جان کی اہمیت کا احساس فیصلہ سازی کی جس سطح پر ہونا چاہئے وہ دیکھنے میں نہیں آ رہا اور یہی وجہ ہے کہ ایسے عوامل موجود ہیں جو آئے روز موٹرویز پر ہونیوالے حادثات یا حادثات سے بال بال بچنے میں براہ راست یا بالواسطہ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اِن عوامل میں موسمیاتی تبدیلیاں‘ ماحولیاتی اثرات جیسا کہ دھند‘ سموگ وغیرہ کا بھی کافی عمل دخل ہے اب تک کے موٹرویز تجربے یعنی عمومی مشاہدے اور تجزئیات کو یکجا کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ موٹرویز پر حادثات کی بڑی وجہ لاپرواہی سے گاڑی چلانا (2 فیصد)‘ تیز رفتاری (25 فیصد)‘ ٹائر پھٹنے سے حادثات (23فیصد)‘ بریک فیل ہونا (18فیصد) اور موٹرویز کو پیدل عبور کرنے کی کوشش میں (9فیصد) حادثات ہوئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار سالہا سال سے کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں جبکہ ضرورت یہ ہے کہ موٹروے سے استفادہ کرنے والے مسافروں کی آرأ بھی اِس میں شامل ہونی چاہئے کہ خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے موٹرویز کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اُن کا سفری تجربہ کیسا رہا یا بار بار سفر کرنے میں اُنہیں کون کون سے ایک جیسے مسائل و مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے یا مسائل و مشکلات اُن کی نظروں سے گزرتے ہیں؟ موٹرویز قومی اثاثہ ہیں جنہیں بہتر سے بہتر بنانے کے ساتھ اِن کے انتظامی امور (مینجمنٹ) میں وقت کے ساتھ اصلاحات ضروری ہیں تاکہ مسافروں کو معیاری سہولیات میسر آئیں۔ اُنہیں اپنی حفاظت کا احساس ہو۔ اِس مقصد کیلئے رہنمائی کا مناسب ”ٹریفک گائیڈنس اینڈ کنٹرول سسٹم“ ہونا چاہئے تاکہ گاڑیوں کی محفوظ نقل و حرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جن دیہی یا شہری علاقوں کے آس پاس سے موٹرویز گزرتی ہے وہاں کے رہنے والے کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے موٹروے پیدل عبور کرنے جیسا خطرہ مول لیتے ہیں جبکہ ایسے خطرات کو انڈر پاسز بنا کر کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ گاڑیوں بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ کو حد رفتار کا لحاظ پاس رکھنے کیلئے اُن کی رفتار ایک ٹول پلازے سے دوسرے ٹول پلازے تک دیکھی جانی چاہئے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے جو ڈرائیور تیزرفتار یا گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کریں اُنہیں سخت جرمانے ہونے چاہیئں ٹائر پھٹنے کی وجہ سے ہونے والے حادثات کی روک تھام ’ٹائر چیکنگ گیج‘ اور بریک فیل ہونے کی صورت حادثے سے بچنے کی تربیت کے لئے ذرائع ابلاغ (پرنٹ‘ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا) کے ذریعے آگاہی مہمات چلائی جانی چاہیئں۔ شاہراؤں پر سفر محفوظ اور قابل محفوظ بنانے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔موٹرویز اور گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ سے سفر کرنے میں دو بنیادی فرق ہیں۔ سب سے پہلا اور نمایاں اہم فرق یہ ہے کہ موٹرویز پر ’جی ٹی روڈ‘ کے مقابلے فی گاڑی زیادہ ’ٹول ٹیکس‘ وصول کیا جاتا ہے۔ دوسرا فرق موٹرویز پر بنائے گئے قیام و طعام کے مقامات میں خدمات کی قیمت نسبتاً زیادہ وصول کی جاتی ہے جبکہ تیسری عمومی شکایت قیام و طعام کے مقامات (ریسٹ ایریاز) میں بنائے گئے ’عوامی واش رومز‘ کی خراب حالت اور صفائی کے انتہائی ناقص انتظام سے متعلق ہے‘ موٹرویز کو پیدل عبور کرنے کی کوشش عمومی حادثات کا باعث بنتی ہے ایسی کسی ہنگامی صورت میں اگر موٹرویز کے متعلقہ شعبے کو بذریعہ ”ہیلپ لائن فون نمبر 130“ اطلاع دی جائے تو یہ بات یقینی نہیں ہوتی کہ فوری مدد پہنچے گی۔ اگر ہنگامی حالات میں کی گئی کسی فون کال کو کئی منٹ تک انتظار کروانے کے بعد جواب دیا جائے تو اِس سے ’ہنگامی حالت (ایمرجنسی)‘ میں مدد کا تصور مجروح ہوتا ہے۔