مہنگا سونا: قیاس آرائیاں 

امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں دو روز کے دوران قریب چودہ (13.7) فیصد  کمی کے بعد پاکستان میں سونے (gold) کی قیمت تاریخ میں پہلی مرتبہ 2 لاکھ روپے فی تولہ (کی نفسیاتی حد) سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے سونے کی قیمتوں میں مزید اضافے کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دو روز کے دوران عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں 200 ڈالر فی اونس کمی کے باوجود پاکستان میں سونے کی قیمت بڑھنے کی وجوہات  میں سونے کی طلب (مانگ) میں اچانک اضافہ بتایا جا رہا ہے۔ پشاور کی جیولرز مارکیٹ (اندرشہر بازار) میں ایک دن کے دوران سونے کی فی تولہ قیمت میں سات ہزار روپے اضافہ ہوا اور ایک چھلانگ میں قیمت ’دو لاکھ دو ہزار پانچ سو روپے‘ تک جا پہنچی۔ اِس صورتحال سے دکاندار اور بالخصوص وہ کاریگر پریشان دکھائی دیتے ہیں جن کے بقول سونے کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے اِس کی خریدوفروخت ”مزید“ کم ہو جائے گی جبکہ صارفین کی بڑی تعداد پہلے ہی مصنوعی زیورات (آرٹیفیشل جیولری) استعمال کر رہے ہیں۔ مصنوعی زیورات کی خاص بات یہ ہے کہ اِنہیں کچھ ایسی مہارت سے تیار کیا جاتا ہے کہ نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے اور اگرچہ یہ ’سنہری دھات (سونے)‘ کا متبادل نہیں لیکن شادی بیاہ کے مواقعوں پر اِن کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ سونے کی قیمتوں میں اضافے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ شادی بیاہ یا دیگر تقاریب کے لئے زیوارت کرائے پر حاصل کر لئے جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ کاروبار پھیل رہا ہے۔ ایک دکاندار کے بقول ”مہنگائی نے بہت سی روایات کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور اب شادی بیاہ یا دیگر تقاریب کے لئے صرف زیورات ہی نہیں بلکہ عروسی ملبوسات بھی حسب ضرورت کرائے پر حاصل کئے جا سکتے ہیں۔“سونے کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے دکاندار اور خریدار یکساں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک دکاندار کے بقول ”جس قدر غیریقینی کی صورتحال آج دیکھنے میں آ رہی ہے ماضی میں کبھی بھی کرنسی و سونے کی مارکیٹ اِس قدر پریشان حال نہیں دیکھی گئی۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہر چند منٹ بعد سونے اور ڈالر کی قیمت معلوم کرنے پر ایک نیا نرخ سننے  میں 
 آتا ہے اور پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اُس کا روپیہ دیگر ممالک کی کرنسیوں کے ممالک طاقتور ہو یا کم سے کم مستحکم ہو جبکہ پاکستانی روپے کی صورتحال قطعی مختلف ہے اور جب تک روپے کی قدر میں استحکام نہیں آئے گا اُس وقت تک کاروباری حالات درست نہیں ہوں گے۔ لائق توجہ یہ بھی ہے کہ سونے کی قیمتیں بڑھنے سے گزشتہ چند ماہ کے دوران سونے کی بڑے پیمانے پر خریداری نہیں ہوئی اور نہ ہی اِس مارکیٹ میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ جیولرز اپنی دکانیں فروخت کر کے جائیداد (ریئل اسٹیٹ) میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ جب ہم سونے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں کمی کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اِس سے زیادہ متاثر ”کاریگر طبقہ“ ہوتا ہے۔ روشنیوں سے جگماتی دکانوں (فروخت کے مراکز) کے پیچھے کاریگروں کی محنت اور مہارت کا عمل دخل ہوتا ہے جو تنگ و تاریک گلیوں میں کم کرائے پر حاصل کردہ دکانوں (جنہیں کٹرہ کہا جاتا ہے) میں بیٹھتے ہیں۔ اِن کاریگروں کو اگر یومیہ مزدوری نہ ملے تو اِن کے لئے دکان کا کرایہ اور کھانے پینے جیسے روزمرہ اخراجات کی ادائیگی تک ممکن نہیں رہتی۔ قیمتوں میں اضافے کے حالیہ رجحان نے زیورات کے سیٹوں کی مانگ میں غیرمعمولی کمی کی ہے۔ ناک یا کان میں پہننے والے ایک چھوٹے (بظاہر معمولی) زیور کی قیمت بھی سات سے دس ہزار روپے ہو چکی ہے! جو سخت معاشی حالات میں عام آدمی کی قوت ِخرید سے زیادہ ہے! حیرت انگیز طور پر سونے کی قیمت ڈالر مارکیٹ میں ہونے والے اُتار چڑھاؤ سے جڑی (نتھی) ہے اور اِس پر ماضی کی طرح حکومت کا کنٹرول (عمل دخل) نہیں رہا جس کی کئی ایک
 وجوہات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے ڈالر کی قدر کے تعین کا اختیار ’مارکیٹ‘ کو دیدیا گیا ہے اور اِس کے بعد سے چونکہ تمام درآمد شدہ خام مال اور تیار شدہ اشیاء  یا اِن کے خام مال کی قیمتیں انٹربینک نرخوں سے منسلک ہوتی ہیں لیکن سونا کو ایک خصوصی استثنیٰ حاصل ہے کہ اس کی قیمت ہمیشہ ’اوپن مارکیٹ‘ میں ڈالر (گرین بیک) ریٹ سے لگایا جاتا ہے۔ توجہ طلب رجحان ہے کہ ڈالر کے نرخ اچانک بڑھنے کی پیشگوئیوں (جو کہ حرف حرف درست ثابت ہوئی ہیں) کے بعد سے سونے کی مارکیٹ میں زیادہ منافع کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ کے دوران زیادہ سرگرمی دیکھی گئی اور سونے کے بعد دوسری سرمایہ کاری ڈالروں میں کی گئی۔ سرمایہ کاری کا عمومی و خصوصی رجحان اور تاریخ دیکھی جائے تو ہمیشہ سے رئیل اسٹیٹ (جائیداد کی خریدوفروخت) سرمایہ کاروں کی پہلی ترجیح رہی ہے جبکہ ڈالر میں فوری منافع کی صلاحیت نے گزشتہ دو سے تین سالوں میں سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سونا ذخیرہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ ایک شخص محدود حجم میں سونے کی سلاخیں باآسانی نقل و حمل کر سکتا ہے جبکہ چمکتی دھات کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنا اور ڈالر کے مقابلے میں سونے میں لین دین نسبتاً آسان ہے۔ فی الوقت سونے کی مارکیٹ میں ”قیاس آرائیاں“ عروج پر ہیں۔اِس صورتحال  میں زیورات کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی قیمتیں عام آدمی کو اِس بارے میں سوچنے کی اجازت نہیں دے رہیں! قومی ادارہ برائے شماریات کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق ”سونے کی درآمدات گزشتہ مالی سال کے مقابلے رواں مالی سال (دوہزارتیئس) کے دوران درآمد ہونے والا سونا چودہ کلوگرام (4 ملین ڈالر) سے بڑھ کر تیئس کلوگرام (168.10ملین ڈالر) رہا ہے جو مقدار میں چالیس فیصد اور قیمت میں چوالیس فیصد اضافہ ہے۔ گزشتہ مالی سال کا اگر جاری مالی سال سے موازنہ کیا جائے تو ادارہئ شماریات کے بقول پاکستان میں تیار ہونے والے زیورات کی برآمدات میں ’معمولی کمی‘ آئی ہے جو فی الوقت 4.8 ملین ڈالر ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ 4.9 ملین ڈالر تھیں۔