سائنس دانوں نے عرق ریزی سے تحقیق کے بعد تصدیق کی ہے کہ دنیا گول ہے۔یہاں ہر چیز گھوم پھیر کر واپس اپنی جگہ پہنچ جاتی ہے۔پرانے زمانے میں جب اشرفیوں، کرنسی نوٹوں اور سکوں کا رواج نہیں تھا تو لوگ بارٹر سسٹم کے تحت کاروبار کرتے تھے یعنی چیزوں کے بدلے دوسری چیزیں لیتے تھے۔مثال کے طور پر زرعی علاقوں کے تاجر غلہ، پھل اور پیاز،ٹماٹر اپنے ساتھ دوسرے ملک لے جاتے اور انہیں بیچ کر کپڑے، گھریلو سامان اور اوزار لاتے تھے وہ سامان اپنے ملک میں بیچ کر ان کے بدلے اناج وغیرہ لیتے تھے۔دنیاگھوم پھر کر اب واپس بارٹر سسٹم کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے۔ہم گذشتہ چار پانچ مہینوں سے یہ رونا روتے رہے کہ دکاندار پیاز بہت مہنگا بیچ رہے ہیں ایک کلو پیاز کی قیمت دو ڈھائی سو روپے سے نیچے آ ہی نہیں رہی۔اب پتہ چلا ہے کہ ہم تو دو سو کا پیاز خرید کر عیاشی کر رہے ہیں فلپائن میں پیاز کی قیمت مقامی کرنسی میں 600 تک پہنچ چکی ہے جو پاکستانی کرنسی میں 27 سو 50 روپے بنتی ہے۔حال ہی میں وہاں شادی کی تقریب میں دولہا اور دلہن کو پھولوں اور کرنسی نوٹوں کے بجائے پیاز کے ہار پہنائے گئے۔جب شادی کی تقریب اختتام پذیر ہوئی تو شادی میں شریک تمام مہمانوں کو دو دو پیاز تحفے میں دیئے گئے۔کچھ عرصہ پہلے ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کسی نے دی تھی۔میاں بیوی اپنی گاڑی میں کہیں جا رہے تھے۔سڑک کنارے ایک سبزی فروش ریڑھی میں پیاز فروخت کر رہا۔اس دوران ایک نوجوان نے سبزی والے سے دو کلو پیاز تولنے کا کہا۔گاڑی میں بیٹھے میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی کی شادی اسی پیاز خریدنے والے لڑکے سے کرائیں گے۔کیونکہ مہنگائی کے اس دور میں جو لڑکا ایک ہی بار دو کلو پیاز خرید رہا ہے وہ اچھا خاصا کما رہا ہو گا اور ان کی بیٹی کو خوش رکھے گا۔پیاز کی عالمگیر مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ ڈالر,یورو، پاونڈ، ریال اور درہم کی جگہ ریاستوں کے درمیان پیاز کی قیمتوں کے حساب سے تجارت ہوگی۔امریکیوں نے ابھی سے خدشات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے کہ یہ ڈالر کے خلاف چین کی سازش ہو سکتی ہے۔اس کی کرنسی ڈالر کا مقابلہ نہیں کرسکی اس لئے انہوں نے ڈالر کے مقابلے میں اپنا پیاز میدان میں اتارنے کی ٹھان لی ہے۔پیاز کی روز افزوں بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گاکہ آنے والے دنوں میں لوگ پیاز کو دوائی کے طور پر گھروں میں سنبھال کر رکھیں گے۔ہمارا ملک چونکہ ایک زرعی ملک ہے ہمارے پاس زرخیز زمین، وافر آبی ذخائر اور جفاکش افرادی قوت ہے۔ہم سب کچھ چھوڑ کر صرف پیاز کاشت کریں گے اپنے سارے بیرونی قرضے اتاریں گے اور قرضہ لینے کے بجائے قرضہ دینے والے ملکوں کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔اچھے مستقبل کی امید رکھنا ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔