ان دنوں ماگھ کا مہینہ چل رہا ہے جو سخت سردی اور دھند کا موسم کہلاتا ہے، صبح دیر تک سورج کے آگے دھند نے کبھی مہین اور کبھی گہری چادر تان رکھی ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو بہت دن چڑھے تک یہ منظر رک سا گیا ہو تا ہے۔ اب کے تو سخت سردی نے اپنی پوری توانائی کے ساتھ اپنی موجودگی دکھائی ہے اور جاننے والے کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے ایسی سردی دیکھی نہ سنی جن علاقوں میں برف باری ہوتی ہے وہاں بھی یہی کچھ کہا جارہا ہے کہ معمول سے کہیں زیادہ برف پڑی ہے اور درجہ حرارت جہاں زیادہ زیادہ منفی بیس سے تیس درجے تک جاتا تھا وہاں تو شروعات ہی منفی پینتیس اور منفی چالیس سے ہوئی ہیں، اور اب تک برف باری کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ جن علاقوں میں برف پڑتی ہے وہاں برف پڑتے سمے موسم زیادہ سرد نہیں ہو تا مگر جو اس کے بعد ہوا چلنا شروع ہو جاتی ہے تو جیسے رگوں میں خون منجمد ہو جاتا ہے،اس مہینے بارشیں پھاگن کی نسبت کم کم ہوتی ہیں لیکن پھر بھی یہاں وہاں بھرپور چھینٹا پڑ جاتا ہے۔جو اس لئے بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ خشک سردی کی وجہ سے موسمی بیماریوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے، اور اس موسم میں اکثر یہی ہوتا ہے اور پھر باران ِ رحمت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں، اس بار بہت سے علاقوں میں برف باری کی طرح بارشیں بھی وقفے وقفے سے خوب ہوئیں، لیکن پشاور کے حصّے کا آسمان بادلوں کا منتظر ہی رہا، کچھ بھولے بھٹکے بادل آئے بھی مگر ان کے چھاگل میں پانی ”درد َ تہہ جام“ سے زیادہ نہ تھا سو دو چار چھینٹیں گرا کر بادل لوٹ گئے، جس کا فائدہ موسمی بیماریوں نے خوب اٹھایا او ر‘ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے‘ ان کا شکار ہیں بہت کم خوش قسمت گھر ایسے ہیں جو ان بیماریوں سے محفوظ ہیں، آغاز میں ”کوڈ“ کے وار بھی پڑے مگر زیادہ دیر تک رکے نہیں البتہ گلے اور سینے کے انفیکشنزگزشتہ کل کی طرح آج بھی یار لوگوں کی جان کو آئے ہوئے ہیں، میڈیا پر بھی مسلسل یہی خبریں چلتی رہیں کہ ہسپتال موسمی بیماریوں کے شکار مریضوں سے بھر گئے ہیں، شہر کے بہترین معالج بھی مریضوں کو دوا کے ساتھ نسخے میں بارش کے لئے دعا بھی تجویز کر رہے ہیں، اور بہت سے معالج تو دوا کی بجائے مریضوں کو دیسی ٹوٹکوں سے علاج کا مشورہ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں، تھروٹ انفیکشن اور فلو کے بارے میں یہ چٹکلہ بھی مشہور ہے کہ اگر آپ اس کے لئے کوئی دوا لیتے ہیں تو یہ تین ہفتوں میں ٹھیک ہو جائے گا اور اگر کوئی دوا نہیں لیتے تو پھر یہ پورے اکیس دن تک پھیل جائے گا۔ گویا دونوں صورتوں میں اکیس دن کا وقت لیتے ہیں لیکن اس بار تو یہ فارمولا بھی غلط ثابت ہو رہاہے، خصوصاً بدلتے موسم کے آغاز میں َ تھروٹ انفیکشن کا شکار ہونے والے مریض دسمبر اور جنوری (پوہ اور ماہ) کے دونوں مہینے کھانس کھانس کر ہلکان ہو رہے ہیں اور اس خشک کھانسی کے لئے کو ئی دوا اور کوئی ٹوٹکا کارگر ثابت نہیں ہو رہاہے، اور سیانے اس کا یہی علاج بتا رہے ہیں کہ جب تک باران رحمت کا بھرپور چھینٹا نہیں پڑتا صورت حال میں کم کم ہی کوئی تبدیلی واقع ہو گی، نجی محافل میں اور مل بیٹھنے کی ساری تقریبات میں اسی حوالے سے کہنے اور سننے کو تو بہت کچھ ملتا ہے اپنے اپنے تجربات بھی شئیر کئے جاتے ہیں تاہم ہمارا میڈیا ایک آدھ چھوٹی سی رپورٹ کے علاوہ پر اسرار طور پر اس حوالے سے خاموش ہے،حکومت نے تو خیر پھر بھی اس کا آسان سا حل یہ نکالا ہے کہ سب کچھ مہنگا کر دو تا کہ یار لوگ اپنی بیماریاں بھول کر بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کے حصول میں جت جائیں، اس پر بھی بہت سے کم گوش لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کو ہمارا خیال نہیں، کل ہی ایک آٹو والا مجھے بتا رہا تھا کہ چند ہی دنوں میں فیول کی قیمت میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ چیخیں نکل گئی ہیں،میں کئی برسوں سے صبح سات بجے گھر سے آٹو لے کر مزدوری کے لئے نکلتا ہوں اور سہ پہر تین بجے تک گھر واپس چلا جاتا رہا ہوں اور اب گزشتہ دو مہینوں سے نکلتا توصبح سات بجے ہی ہوں مگر گھر رات کو گیارہ بجے کے بعد پہنچتا ہوں پھر بھی گزارا نہیں ہوتا دو روز پہلے ہی میرے انتظار میں جاگی ہوئی میری چھے سالہ بیٹی نے مجھ سے پوچھا کہ میں اتنی دیر سے کیوں گھر آتا ہوں میں اسے کیا سمجھاتا میں نے ایسے ہی اسے کہہ دیا کہ میں جلدی گھر آیا توپھر ہم تین کی بجائے دو وقت کھانا کھائیں گے ناشتہ کے بعد یا دوپہر یا رات کا کھانا تو وہ بھولی بچی اتنا روئی کہ مجھ نہیں سنبھل رہی تھی، مگر اب تو مہنگائی کی اس تازہ لہر نے جس میں بظاہر تو پٹرول مہنگا ہوا ہے مگر اس کے اثرات اب ہر چیز پر پڑیں گے ضرورت کی ہر چیز مہنگی ہو جائے گا، فروٹ تو صرف دیکھنے کی حد تک ہی ہمارا مقدر ہے مگر سبزی سے لے کر دودھ دہی تک ہماری پہنچ سے دور ہو جائیں گے، اب رات دو بجے تک بھی کام کروں تو دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہو گا، یہ اس کا مکالمہ نہ تھا خود کلامی تھی کیونکہ میں نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا پھر وہ ہنس پڑا دیکھیں ناجی اب بھینس کا پٹرول سے کیا تعلق کہ دودھ دہی بھی مہنگا ہو جائیگا۔ میں نے اس کی ہنسی میں ضرور شریک ہوا، کیونکہ میں سمجھ گیا کہ ابھی اس کی حس، مزاح سلامت ہے، بھلے سے یہ زہر خند ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے اسے کہا کہ شکر کریں کہ ہمارے سیاسی زعما کو اس کی فکر ہے اور وہ بھی مہنگائی کی بات کر رہے ہیں کہنے لگا جی ہاں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی حد تک ہمارے تمہارے کاندھوں پر اپنے مفادات کی بندوق رکھ کرگولی چلانا تو کوئی ان سے سیکھے،اگر یہ اتنے ہی ماہر نشانہ باز ہیں اور ان کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے تو صاحبان ِ اقتدار کو دے دیں یا مل جل کے کوئی حل نکال لیں، عام آدمی کے دکھوں کا حل اپنے بر سر اقتدار آنے تک کیوں تھیلی میں چھپائے ہوئے ہیں، اسے میز پر کیوں نہیں رکھ دیتے، مان لیں یہ سب اپنے مفاد ات میں پھنسے ہوئے ہیں، معلوم نہیں کہ اور وہ کیا کچھ کہتا غنیمت ہے کہ میری منزل آگئی تھی، میرے پاس اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا ایسے ہی رواروی میں پوچھ لیا کب سے آٹو چلا رہے ہو کہنے لگے اب تو یاد بھی نہیں شاید دس برس ہو گئے گریجوئیشین کے دو سال بعد تک بیروزگاری کی سختیاں جھیلنے کے بعد زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے یہ سٹیئرنگ سنبھال لیا تھا، میں کچھ زیادہ بول گیا ہوں تو معافی چاہتا ہوں، وہ تو چلا گیا اور میرے ہونٹوں پر بے اختیار غلام محمد قاصر کا شعر آ گیا۔
سب اپنی اپنی خریداریوں کی فکر میں ہیں
نظر کسی کی نہیں ہے مرے خسارے پر