پشاور کہانی: راتوں رات 

لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کے سیکشن (شق) 66 کے تحت پشاور شہر کے گرد چاردیواری (فصیل ِشہر) کے باقی ماندہ کسی بھی حصے کو منہدم کرنا جرم ہے یہی وجہ ہے کہ اِس جرم کے سرزد (ارتکاب) کرنے والوں کے خلاف (بیشتر واقعات میں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے ملنے والی اطلاع پر) کاروائی کرتے ہوئے مقدمہ (ایف آئی آر) درج کیا ہے جو ایک رسمی (نمائشی) اقدام بن چکا ہے۔ فصیل شہر کے محافظ 2 حکومتی ادارے ضلعی (میٹروپولیٹن) حکومت (لوکل گورنمنٹ) اور محکمہئ آثار قدیمہ (آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ) قواعد و قوانین پر خاطرخواہ سختی سے عمل درآمد کرانے میں ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ سٹی سرکلر روڈ پر ’رامداس‘ کے قریب فصیل شہر کے باقی ماندہ نشان کو راتوں رات مٹا دیا گیا ہے اور اطلاع ملنے پر مقدمہ (ایف آئی آر) درج کروا دی گئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ماضی و حال میں فصیل شہر اور دروازوں کی صورت ’پشاور کے اثاثہ جات‘ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والوں کے خلاف پولیس مقدمات (ایف آئی آر) درج ہوئے لیکن فصیل ِشہر بحال نہ ہو سکی اور نہ ہی آثار قدیمہ کو نقصان پہنچانے سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی (مذکورہ دفعات) میں قدر سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں جن کی وجہ سے فصیل ِشہر کو نقصان پہنچانے والے کسی اقدام سے پہلے ”کم سے کم“ ایک مرتبہ ہی سوچیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قانون و قواعد کا خاطرخواہ خوف نہیں پایا جاتا۔ قانون شکنی کرنے والے جانتے ہیں کہ اُنہیں کس طرح کے  مراحل کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اَلقصہ مختصر پشاور کے ’اثاثہ جات‘ کو بچانے کے لئے جو قوانین و قواعد بنائے گئے ہیں‘ وہی اِن ماضی کے نقوش کی تباہی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ضرورت قواعد و ضوابط پر نظرثانی کے ساتھ نگرانی کا ایسا نظام وضع کرنے کی بھی ہے جس میں فصیل شہر کو عموماً ”راتوں رات“ پہنچنے والے نقصان کو روکا جا سکے۔ توجہ طلب ہے کہ پولیس رپورٹ میں جس راتوں رات ’استعارے‘ کا استعمال کیا جاتا ہے درحقیقت وہ ’راتوں رات‘ نہیں  بلکہ اُس سے ہفتوں قبل تیاری کی جاتی ہے۔ اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ فصیل شہر سے متصل تعمیرات کے نقشہ جات منظور کرنے والا ’میٹرو پولیٹن (ضلعی حکومت) کا شعبہ‘ اور ’ڈیمالشنگ شعبہ‘ کے درمیان خاطرخواہ ربط موجود نہیں ہے۔ نقشہ جات کی منظوری سے ’ڈیمالشنگ شعبے‘ کو آگاہ نہیں کیا جاتا تاکہ وہ کسی عمارت کی پہلی اینٹ (بنیاد) رکھنے سے پہلے اِس بات کو یقینی بنائیں کہ تعمیرات منظورشدہ نقشے کے مطابق ہو رہی ہیں یا نہیں۔  توجہ طلب ہے کہ آج کی تاریخ  میں پشاور میں رہنے والوں کی اکثریت کے شخصی یعنی ذاتی اور شہر کا فائدہ یعنی اجتماعی مفادات ایک نہیں رہے بلکہ یہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ آج کے پشاور میں قناعت‘ خود احتسابی اور شہری ذمہ داریوں کے احساس (civic-sense) کا فقدان پایا جاتا ہے۔ جہاں لکھا ہو کہ یہاں گندگی (کوڑا کرکٹ) پھینکنا منع ہے‘ وہیں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ملیں گے۔ جہاں لکھا ہو کہ یہاں پارکنگ منع یا ہارن بجانا کسی وجہ سے ممنوع ہے وہیں سب سے آمدورفت میں حائل سب سے زیادہ رکاوٹیں اور شور شرابا ملے گا۔ 1257 مربع کلومیٹر پر پھیلے ضلع پشاور کے شہری حصے میں رہنے والوں کی شرح خواندگی 51.51 فیصد جبکہ دیہی علاقوں پر مشتمل پشاور میں رہنے والوں میں شرح خواندگی 48.49 فیصد اور مجموعی اوسط شرح خواندگی 41.7 فیصد ہے۔ خیبرپختونخوا کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا قریب 12 (11.9) فیصد ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہاں کے 52فیصد آبادی مرد اور 48فیصد خواتین خواندہ ہیں جبکہ مجموعی صوبائی شرح خواندگی 53فیصد ہے۔ اِس قدر بلند شرح خواندگی کے ثمرات پشاور سمیت صوبے کے کسی بھی ضلعی صدر مقام‘ شہری یا دیہی علاقے میں عیاں (قابل ذکر) نہیں ہیں! سوچنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ شہری علاقے جنہیں زیادہ خواندہ ہونے کی وجہ سے زیادہ باشعور ہونا چاہئے لیکن یہاں ہر مسئلے کی شدت دوسرے علاقوں سے زیادہ دکھائی دیتی ہے؟ وقت ہے کہ پشاور کے باقی ماندہ اثاثوں (فصیل شہر جیسے آثار ِقدیمہ) سے متعلق شعور و آگہی کو بھی عمومی خواندگی کا حصہ (جز) بنایا جائے۔ جنوب ایشیا کا قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر ہونے کے ناطے ’پشاور اہم ہے‘ ”میری پہچان ہیں تیرے در و دیوار کی خیر …… میری جاں میرے پشاور‘ میرے گلزار کی خیر۔)“