یورپ ممالک میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات کی تفصیلات سے عیاں ہے کہ اِن معاشروں سے برداشت و رواداری اور مذاہب کے احترام پر مبنی خصوصیات کم ہو رہی ہیں اُور یورپی ممالک ”اسلام مخالف“ دور سے گزر رہے ہیں! ایسا ہمیشہ سے نہیں رہا کہ جب کبھی اسلام کی بات آئی ہو تو یہ براعظم مذہبی اظہار اور اظہار کی آزادی کا مرکز نہ رہا ہو بلکہ یورپی ممالک تو اپنے ہاں ’مثالی برداشت‘ کے لئے جانے جاتے رہے ہیں لیکن حالیہ چند ایک واقعات میں جان بوجھ کر اشتعال انگیزی دیکھنے میں آئی ہے جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اِس لئے بھی تشویشناک ہے کہ اسلام کے مقدسات کی توہین میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اُور ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اِسلام کے مقدسات کی توہین رونما ہونے والے تازہ ترین جرائم ہیں جو اسلاموفوبیا کی عملی مثالیں ہیں۔ ڈنمارک اور سویڈش میں انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے مذہبی کارندوں کی طرف سے مسلمانوں اور ان کے عقیدے سے بے پناہ نفرت کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ رواں ماہ سویڈن میں ترک سفارت خانے کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی ہے جس پر پورا عالم اسلام سراپا احتجاج ہے۔ یہ یورپ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اور یورپی حکومتوں اور شہریوں نے اس طرح کے اقدامات پر برسوں سے جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے اس سے اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک کہ حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف
سے یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے کہ ثقافتی اور مذہبی اختلافات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی مذہب یا اُس کے مقدسات کا مذاق اڑانا قابل قبول فعل نہیں ہو سکتا۔ ایک ایسے براعظم کے لئے جو سب کے لئے مساوی حیثیت اور اپنی سیکولر اقدار پر فخر کرتا ہے اور جہاں نسل و مذہب اور صنف وغیرہ سے قطع نظر سب کے لئے آزادی اور مساوات کی فراہمی کا وعدہ کیا جاتا ہے اِس قسم کی صورتحال اقدار کا مایوس کن زوال ہے۔سویڈن کے معاملے میں نیٹو کے مؤقف (دلیل) کو نفرت پھیلانے جیسے عوامل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی و معاشی وجوہات کی بنا پر یورپ میں پناہ میں داخل ہونے والے مسلمانوں کے خلاف ناراضگی پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد کا تعلق ان ممالک سے ہے جو یورپ اور امریکہ کی سازشوں کی وجہ سے جنگ زدہ ہیں اُور تباہ حال ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی حالت زار ”حقیقی مسئلہ“ ہے‘ کیونکہ یورپ و دیگر ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگیاں پہلے سے مشکل ہو رہی ہے اُور اگر یہی رجحان جاری رہا تو اِس سے دنیا بدصورت جگہ میں تبدیل ہو جائے گی۔ اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیموں کو بڑھتی ہوئے ”اسلامو فوبیا“ کے بارے میں یورپ و امریکہ سے بات چیت کرنی چاہئے اور اُن مسلمانوں کا مقدمہ لڑنا چاہئے جو یورپ و دیگر مسیحی اکثریت والے ممالک میں رہتے ہیں اور اُن سے بُرا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ مسلمانوں یورپ و امریکہ میں جہاں کہیں بھی آباد ہیں وہ اِن ممالک کی علمی‘ فنی‘ ادبی و معاشی تعمیروترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود اگر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے تو ایسے افراد اور سوچ کا یورپی ممالک کے سربراہوں کو نوٹس لینا چاہئے۔جس سے عالمی سطح پر اشتعال پھیل رہا ہے۔