پھولوں کے شہر پشاور کی فضائیں ایک بار پھر سوگوار ہو گئیں۔پورا شہر شہیدوں کے خون سے لہو لہو ہو گیا۔جو زندہ ہیں وہ بھی خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ سینٹرل پولیس لائنز کے وسط میں پشاور کے حساس ترین علاقے میں قائم مسجد میں نماز ظہر کے دوران پہلی صف میں کھڑے خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیا۔دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ محراب سمیت مسجد کی مغربی دیوار اور چھت زمین بوس ہوگئی۔ جس سے 90سے زائد افراد جان بحق جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔پولیس لائن مسجد میں ہونے والا یہ دھماکہ شہر میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔اس سے پہلے پشاور میں کم و بیش پانچ سو بم دھماکے ہو چکے ہیں جن میں سانحہ آرمی پبلک سکول،چڑوی کوباں، کوہاٹی چرچ، کوچہ رسالدار، آرٹلری، سوئیکارنو چوک، ڈینز چوک، پشاور صدر، پی سی ہوٹل، کاکشال اور قصہ خوانی میں ہونے والے دھماکے نہایت ہولناک اور ہلاکت خیز تھے۔ شہر پشاور دہشت گردی کے خلاف نام جنگ میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر ہے۔یہ شہر گذشتہ44 سالوں سے حالت جنگ میں ہے۔یہاں ہر دوسرے تیسرے گھر سے شہدا ء کے جنازے اُٹھے ہیں۔یہاں کے ہزاروں شہری زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے، ہزاروں ماؤں سے ان کے لخت جگر چھن گئے ہزاروں سہاگنوں کے سہاگ اُجڑ گئے، ہزاروں بچے یتیم ہو گئے، ہزاروں خاندان کفالت کرنے والوں سے محروم اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔شہر کے قبرستان شہدا کی قبروں سے بھر گئے۔انتہائی حساس مقام تک دہشت گردوں کے پہنچنا ایک سوالیہ نشان ہے اور اس حوالے سے ضرور تحقیقات کی جارہی ہوں گی کہ کس طرح یہاں تک باردود کے ساتھ حملہ آور پہنچے۔اگر انہیں کوئی اندرونی مدد حاصل تھی یا سہولت کار میسر تھاتو اس ضمن میں بھی جلد ہی سب کچھ سامنے آجائے گا۔ پشاور میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے تاہم اس سلسلے میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں تیزی سے اچھے نتائج جلد ہی سامنے آجائیں گے۔ دھماکے بعد وزیر اعظم اور اعلیٰ سیکورٹی حکام کے اجلاس ہوئے جس میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے حوالے سے تیز اور موثر اقدامات کرنے کے حوالے سے غور ہوا۔ایسے حالات میں کہ جب ملک پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہے، دہشتگردی کے واقعات یقینا ان مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔