امریکی جامعہ (یونیورسٹی آف کیلیفورنیا) کی ’کلائمنٹ اینڈ کیمونٹی‘ نامی تحریر و تحقیق سے متعلق حکمت عملی نے ’ماحول دوست نقل و حرکت (ایچیونگ زیرو ایمیشن ود مور موبیلٹی اینڈ لیس مائنگ)‘ کے عنوان سے جائزہ جاری کیا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کم فاصلوں کی مسافت کے لئے گاڑیوں کا استعمال نہ کیا جائے۔ پیدل چلنے کی عادت اپنائی جائے اور آبادی کے مراکز (شہروں قصبوں) میں فراہم کردہ سہولیات پر نظرثانی کی جائے تاکہ نقل و حرکت کے رجحانات تبدیل کئے جا سکیں۔ دنیا ’ماحولیاتی انحطاط‘ سے پریشان ہے جس کی وجہ سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ کرہئ ارض پر انسان کا مستقبل بھی غیریقینی سے دوچار ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے لئے کرہئ ارض کا درجہئ حرارت ’ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ‘ کم کرنے پر عالمی اتفاق رائے ’پیرس معاہدہ‘ کہلاتی ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے مذکورہ معاہدے پر خاطرخواہ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔
امریکہ میں ہوئی مذکورہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ایسی موٹرگاڑیاں بھی ماحول دشمن ہیں جن میں ایندھن ذخیرہ کرنے کے لئے بیٹریاں نصب کی جاتی ہیں کیونکہ اِن بیٹریوں کو بنانے اور تلف کرنے سے ماحول کا نقصان ہو رہا ہے اور بہتر یہی ہے کہ اہل زمین ماحول کی بہتری کے لئے ہر قسم کی گاڑیوں کا استعمال کم سے کم کر دیں۔ آمدورفت کے لئے حتی الوسع پیدل چلنے کی کوشش کی جائے تاکہ کم سے کم دھواں پیدا ہو۔ کرہئ ارض پر رہنے والوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے جن اثرات کا سامنا ہے اُن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مختلف (آؤٹ آف باکس) تدابیر اختیار کرنا ہو گی جیسا کہ ایک کہانی ہے کہ کسی شخص کو شیر‘ بکری اور گھاس کو دریا کے پار سلامت حالت میں اِس طرح پہنچانا تھا کہ کوئی فریق دوسرے کو نہ کھائے۔ اگر وہ شیر اور بکری کو ایک ساتھ کشتی میں لے جائے تو اندیشہ ہے کہ شیر بکری کو کھا جائے گا۔ اگر بکری اور گھاس کو کشتی پر سوار کرے تو اندیشہ ہے کہ بکری گھاس کھا جائے گی۔ اگر پہلے گھاس کو دوسرے کنارے پر پہنچائے تو اندیشہ ہے کہ ندی کنارے اکیلا رہ جانے والا شیر بکری کھا جائے گا اور اگر شیر کو اکیلا چھوڑ کر بکری اور گھاس دوسرے کنارے پر لے جائے تو اندیشہ ہے کہ بکری گھاس کھا جائے گی لیکن اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ شیر اور گھاس کو پہلے دوسرے کنارے پر پہنچایا جائے اور اِس کے بعد دوسرے پھیرے میں بکری لے جائی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کرہئ ارض پر رہنے والوں کو بھی بالکل اِسی نوعیت کا کوئی حل تلاش کرنا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں میں کمی لانے کے لئے اپنے معمولات زندگی پر نظرثانی کریں کہ کن امور کی مرحلہ وار انجام دہی سے وہ مطلوبہ نتائج (بہتری) حاصل کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی جامعہ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے لئے تجویز کیا ہے کہ شیر و بکری کو اکٹھا نہیں چھوڑا جا سکتا کہ ہم زیادہ ایندھن بھی استعمال کریں اور ماحول دوستی کا خواب بھی دیکھیں۔ کہانی کا شیر ’ایندھن‘ ہے جبکہ بکری ایندھن کی بچت کے لئے یکساں ماحول دشمنی ایسی گاڑیوں کی تخلیق ہے جو لیتھیئم کا استعمال کرتی ہیں۔ کم مسافت کے لئے کسی بھی قسم کی (چھوٹی بڑی) گاڑی استعمال کرنے کی بجائے اگر پیدل چلنے کوترجیح دی جائے تو ماحول کی بہتری کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں تجارتی مراکز کے قریب ’کار پارکنگ‘ بنا کر بازاروں میں گاڑیوں کی تعداد کم کی جاسکتی ہے اِس طرح رہن سہن کی لاگت میں بھی کمی آئے گی اور ایندھن (پیٹرول ڈیزل یا سی این جی) کی بچت ممکن ہوگی۔ مذکورہ رپورٹ میں دلیل دی گئی ہے کہ لیتھیم کی مانگ کم کرنے کے لئے نئی ایجادات کی ضرورت ہے بالخصوص ایسی بیٹریاں بنائی جائیں جن میں توانائی ذخیرہ (سٹوریج) کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو اور وہ ماحول دوست بھی ہوں لہٰذا الیکٹرانک گاڑیوں پر منتقلی کے تصور کی بجائے اگر انفرادی طور پر گاڑیوں کا استعمال کم کیا جائے اور مسافت کے لئے اجتماعی گاڑیاں استعمال کی جائیں یا پیدل چلنے اور سائیکل چلانا پھر سے رواج بن جائیں تو یہ خیال (تصور) بُرا نہیں ہے۔ اس سے قطع نظر کہ امریکی رپورٹ میں صرف یہی تجویز کیا گیا ہے کہ شیر (ایندھن) بکری (بیٹریاں) اور گھاس (الیکٹرانک گاڑیوں) سے چھٹکارا حاصل کیا جائے لیکن اصل مسئلہ وہ چھوتی بڑی صنعتیں بھی ہیں جو گاڑیوں کے بعد ماحول میں دُھواں اگلنے والا دوسرا بڑا ذریعہ (سورس) ہیں۔