امریکی فضائیہ کے ایک جنرل کی جانب سے 2025 میں چین کے ساتھ جنگ کی پیش گوئی کرنے والا ایک متنازعہ میمو امریکہ کے دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو دیکھنے کے انداز میں سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق ظاہر کرتا ہے۔اس میمو میں، جو گزشتہ ہفتے آن لائن گردش کرنا شروع ہوا، جنرل مائیکل منیہن نے ایک اہم بیان کے ساتھ آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ میں غلط ہوں تاہم میری چھٹی حس مجھے بتاتی ہے کہ 2025 میں ہماری لڑائی ہو گی۔منیہن، ایئر فورس کی ایئر موبلٹی کمانڈ کے انچارج ہیں، جو لاجسٹکس پر مرکوز 5,000 افراد پر مشتمل یونٹ ہے۔وہ امریکہ اور چین کے درمیان جنگ کی اپنی پیش گوئی کے لئے اس مبہم دعوے کے علاوہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے کہ امریکہ اور تائیوان میں ہونے والے آئندہ انتخابات، بیجنگ کو اس بات کاایک موقع فراہم کریں گے کہ وہ خود مختار جزیرے کو اپنے ساتھ دوبارہ ملانے کی کوشش کرے۔منیہن نے جوایک سی ون تھرٹی کے ایک سابق پائلٹ ہیں، اور جنہوں نے امریکی فوج میں دیگر اعلی عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں ستمبر 2019 سے اگست 2021 تک یو ایس انڈو پیسفک کمانڈ کے ڈپٹی کمانڈرکا عہدہ بھی شامل ہے، اس لیے وہ چینی فوج کے بارے میں گہری سمجھ رکھتے ہیں۔منیہن کے تبصرے سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن سمیت بائیڈن انتظامیہ کے اعلی عہدہ داروں کے بیانات سے متصادم دکھائی دیتے ہیں۔اگر چہ جنرل مینہن کی پیش گوئی سے سرکاری طور پر پینٹگان نے اپنے آپ کو علیحدہ کیا ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ کوئی نہ کوئی کچھڑی پک رہی ہے۔ اس ماہ کے شروع میں، آسٹن نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ امریکہ نے تائیوان کے خلاف چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے کو نوٹ کیا ہے، لیکن انہوں نے قریبی مدت کے حملے کے امکان کو زیادہ اہم طور پر بیان نہیں کیا۔ہمیں یقین ہے کہ وہ ایک نیا معمول قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حملہ قریب ہے یا نہیں، مجھے اس پر سنجیدگی سے شک ہے۔وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے ایک بیان میں، پینٹاگان کے پریس سیکرٹری ایئر فورس بریگیڈیئر جنرل پیٹرک رائڈر نے کہا ہے کہ قومی دفاعی حکمت عملی واضح کرتی ہے کہ چین محکمہ دفاع کیلئے ایک چیلنج ہے اور ہماری توجہ ایک پر امن، آزاد اور کھلے انڈو د پیسیفک کو برقرار رکھنے کے لئے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مرکوز ہے۔خاص طور پر منیہن میمو کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر، پینٹاگان نے محکمہ دفاع کے ایک اہل کار سے منسوب کیا گیاایک بیان بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ تبصرے چین کے بارے میں محکمے کے نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں فارن پالیسی میں ریسرچ کے ڈائریکٹر مائیکل او ہینلون کے مطابق ان کے خیال میں منیہن میمو ایک سنگین غلطی تھی، اور جس پر ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی طرف سے پوچھا جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹرنس کی اہمیت کو جنگ کے امکانات کے ساتھ اس طرح سے جوڑتا ہے جومیرے خیال میں، بہت ہی غیر دانشمندانہ اور ممکنہ طور پر خطرناک ہے۔چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ما ننگ کو پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں جنرل کیبیان پر ردعمل کیبارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تائیوان چین کا حصہ ہے۔ترجمان نے کہا کہ تائیوان کے معاملے کو حل کرنا چینیوں کا معاملہ ہے۔ آبنائے تائیوان میں کشیدگی کے نئے دور کی اصل وجہ تائیوان کے عہدہ داروں کی جانب سے تائیوان کی آزادی کے لئے امریکی حمایت حاصل کرنے کا مسلسل عمل اور امریکہ میں کچھ لوگوں کی جانب سے چین پر قابو پانے کے لئے تائیوان کو استعمال کرنے کا ایجنڈا ہے۔انہوں نے مزید کہا، ہم امریکہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک چین کے اصول کی پابندی کرے۔اگرا مریکی جرنیل کے پیش گوئی کو نظر انداز بھی کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ اور چین دو انتہاؤں پر ہیں اوران کے درمیان تصادم کوئی بہت ہی غیر حقیقی قسم کی پیش گوئی بھی نہیں اور جس طرح امریکہ چین کے حوالے سے جارحانہ پالیسی پر کاربند ہے اگر چین بھی اس کا جواب اسی جارحیت سے دے تو کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔