پشاور پولیس لائن دھماکے کے نتیجے میں پورا ملک سوگوار ہے۔اس سانحے نے کئی خاندان اُجاڑ دئیے۔دھماکے میں مسجد کی چھت بیٹھ گئی جو زیادہ جانی نقصان کا سبب بن گئی۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا اور خود کش حملہ آور کو پولیس کی وردی میں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر سی سی ٹی وی فوٹوز میں دیکھا گیا ہے۔آئی جی پی خیبر پختونخوا کے مطابق پولیس وردی کے باعث چیکنگ کرنے والے سپاہیوں نے اسے اپنا بھائی سمجھتے ہوئے بغیر تلاشی کے جانے دیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دھماکے میں استعمال ہونے والا بارودی مواد دس بارہ کلو گرام ہو سکتا ہے۔آئی جی پی معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور کی شناخت ہوگئی ہے اور اب دہشتگردوں کے نیٹ ورک کے قریب ہیں۔ دہشت گرد اکیلا نہیں تھا بلکہ پیچھے پورا نیٹ ورک تھا، خود کش حملہ آور کو ہدف دیا گیا جوکہ 12 بجکر 36منٹ پر پولیس لائنز میں داخل ہوا۔آئی جی کے پی نے کہا کہ خودکش حملہ آور کا پتا لگا لیا اور اسکا چہرہ بھی پتا چل گیا، خودکش حملہ آور پولیس یونیفارم میں موٹر سائیکل پر آیا جس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا، موٹر سائیکل پر انجن اور چیسز نمبر جعلی تھا۔ موٹر سائیکل کو ڈرامہ کر کے سائیڈ پر لے کر گیا اور اس نے پولیس لائنز پہنچ کر حوالدار سے پوچھا مسجد کہاں ہے۔انہوں نے کہا کہ دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج آگئی ہے، خیبر روڈ سے فوٹیج میں خودکش حملہ آور کا پتا چلا جس نے ماسک پہنا ہوا تھا، جائے وقوع سے خودکش حملہ آور کا ملنے والا سر اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والا حملہ آور ایک ہی ہے۔انہوں نے کہا کہ دھماکے میں ٹی این ٹی بارود استعمال کیا گیا جبکہ بلڈنگز کو گرانے والا بارودی مواد استعمال کیا گیا، زخمی احتیاط کی وجہ سے بچ گئے ان کو ملبے سے نکالا گیا۔ دھماکے میں 5 سے 10 لوگ شہید ہوئے ہوں گے لیکن زیادہ اموات چھت گرنے سے ہوئیں، 50 فٹ کا ہال تھا جس کے پلرز نہیں تھے جس کے باعث چھت گری۔ مسجد 50 سال پہلے بنی جبکہ مسجد کا کمرہ مکمل بند تھا اور پرانا ہال تھا۔اس کے ساتھ ساتھ پولیس لائنز دھماکے سے پہلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی جس کی مدد سے کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔حاصل کردہ تصاویر پولیس لائنز مسجد کے قریب والے کیمرے کی ہے۔فوٹیج کے مطابق دھماکا 1بجکر17 منٹ کے قریب ہوا اور دھماکا ہوتے ہی بجلی منقطع ہوگئی۔ تحقیقاتی ٹیم نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے تفتیش کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والے افراد کی شناخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔واقعے کی تحقیقات کے لئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف بائیس سالہ جنگ میں خیبر پختونخوا پولیس نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔صفت غیور، ملک سعد اورعابد علی سمیت سینکڑوں پولیس افسروں اور اہلکاروں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔یہ پولیس اہلکار ہی ہیں جو اس وقت بھی سڑکوں پر گشت کرتے ہیں جب عوام گھروں میں گہری نیند سوئے ہوتے ہیں۔الیکشن اور پولیو مہم میں بھی وہی پیش پیش ہوتے ہیں۔وی آئی پی شخصیات کے گھروں، دفاتر اور موومنٹ کے دوران بھی پولیس اہلکار ان کی حفاظت کرتے ہیں۔قدرتی آفات میں بھی ریسکیو اور امدادی سرگرمیوں کی قیادت پولیس کرتی ہے۔دوسری جانب ان کی سہولیات کا جائزہ لیں تو ان کے پاس سہولیات کی واضح کمی محسوس کی جاسکتی ہے۔تھانوں کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ پیٹرولنگ کے لئے ان کے پاس مناسب گاڑیاں ہیں نہ ہی ان میں فیول ڈالنے کیلئے فنڈز ہیں۔تنخواہ اتنی ہے کہ بمشکل بچوں کو دو وقت کی روٹی ہی کھلا سکتے ہیں۔پولیس فورس ملک کے اندر امن قائم کرنے، عوام کی جان، مال، عزت و آبرو کے تحفظ اور سیاست دانوں سمیت اہم شخصیات کی حفاظت کرنیکی ذمہ دار ہے۔اس فورس کو جدید تقاضوں کے مطابق سازوسامان سے لیس کئے بغیر پائیدار امن کا قیام ایک خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔