تعلیم حاصل و مکمل کرنے یعنی گریجویشن کے بعد ملازمت ملنے کے درمیان وقفہ صرف اِس وجہ سے نہیں کہ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہیں بلکہ اِس صورتحال کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان ملازمت ملنے کے بعد عملی زندگی کے تقاضوں اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار بھی نہیں ہوتے۔ اِسی لئے درس و تدریس کی تربیت پر مبنی ایک ایسے تعلیمی اصلاحاتی بندوبست کی‘ ضرورت ہے‘ جس میں گریجویٹس تنقیدی سوچ رکھیں۔ اُنہیں بات چیت کرنے (اپنے مؤقف کے اظہار) کا اعتماد ہو اور وہ جانتے ہوں کہ وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔پاکستان سال 2017ء سے اُس عالمی تحریک کا حصہ ہے جس میں تعلیم کو عملی زندگی اور عملاً کارکردگی سے متصل کیا جا رہا ہے اِس تصور کو اصطلاحی طور پر ’آؤٹ پٹ بیسیڈ ایجوکیشن (OBE)‘ کہا جاتا ہے جس کے لئے پاکستان نے ”واشنگٹن معاہدے“ پر باقاعدہ دستخط کر رکھے ہیں۔ مذکورہ عالمی تحریک کا حصہ بننے کے ساتھ پاکستان کو مالی و تکنیکی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے تاکہ ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم کے اِداروں میں تدریسی مواد کو عملی زندگی کے نکتہئ نظر (او بی ای) سے جوڑ دیا جائے تاہم یہ تبدیلی اُس وقت تک رونما (عمل پذیر) نہیں ہو گی جب تک معاشرتی سطح پر تعلیمی اصلاحات کے نفاذ سے جڑے ایک بہت ہی بڑے چیلنج کا حل تلاش نہ کیا جائے اور یہ چیلنج مالی و افرادی وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ سے تعلیم کے جدید تصورات پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا۔ جہاں تک مالی وسائل کی کمی کا تعلق ہے تو اِس سلسلے میں عالمی امداد بھی مل رہی ہے اور کچھ نہ کچھ قومی وسائل سے بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے پس و پیش کر دیا جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ تربیت یافتہ ایسے اساتذہ کی کمی کا ہے جو تعلیم کو ملازمت نہیں بلکہ مشن سمجھ کر ادا کریں۔ ’او بی ای‘ ایک طالب علم پر مرکوز تدریس اور سیکھنے کا طریقہ کار ہے جس میں کورس کی فراہمی اور تشخیص مخصوص مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ یہ براہ راست اور بالواسطہ تشخیص کا استعمال کرتے ہوئے طلبہ کی کارکردگی کی مسلسل نگرانی پر توجہ مرکوز کرنے کا نظام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ پروگرام کے اختتام پر‘ ہر انفرادی طالب علم ایسی خصوصیات کا حامل ہوگا جس کی بنیاد پر وہ اپنی کارکردگی اور صلاحیتوں کا اندازہ خود لگانے کے قابل ہوگا اور یہ بات اُس کی شخصیت میں چھپے اعتماد کو ظاہر کرے گی۔ روایتی تدریس میں‘ معلم اس بات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے کہ نصاب میں موجود اسباق کے کن کن حصوں کو کیسے پڑھانا ہے جبکہ اس روایتی تدریسی طریقے کے برعکس نئے نظام (او بی ای سسٹم میں) معلم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کے سیکھنے کے عمل (صلاحیت) میں اضافہ کرے کہ وہ کیا کچھ سیکھ رہے ہیں اور اِس بات کا بھی جائزہ لے کہ نصاب کے اختتام پر‘ اُس کی کامیابی کا انحصار اُن باتوں پر ہو جو اُس نے سیکھا ہے یوں طالب عمل کی توجہ نصاب کے عملی اطلاق پر رہتی ہے۔نوے کی دہائی سے تعلیم کا یہ مختلف تصور آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ آئرلینڈ‘ نیوزی لینڈ‘ برطانیہ اور امریکہ میں لاگو ہے۔ اِن ممالک کی سرکاری جامعات نے ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اتفاق کیا ہے کہ طالب علموں کی ذہانت اور اُن کی دلچسپی کو الگ الگ کرنے کی بجائے ایک ہی نکتے پر مرکوز کر دیا جائے۔ اِس حکمت عملی میں بنگلہ دیش‘ چین‘ بھارت‘ فلپائن‘ سری لنکا اور پاکستان جزوی طور پر حصہ لے رہے ہیں ہے اور پاکستان سمیت کسی بھی ہم خیال ملک کو اِس حکمت عملی کا جزوی سے کلی حصہ دار (شراکت دار) اُس وقت بنایا جائے گا جب وہ اپنے ہاں جامعات کی سطح پر تدریس کو بہتر بنانے اور بالخصوص اِسے ’او بی ای‘ نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کرے۔ ’او بی ای‘ کا مؤثر نفاذ کسی تعلیمی ماڈل کو نئے تدریسی تصورات سے روشناس کراتا ہے۔ اگر پاکستان کی سرکاری جامعات میں تدریس کے عالمی تصور کو لاگو کیا جائے تو اُس سے نصاب ایک نئی بلندی سے روشناس ہو گا اور تعلیم صرف نصاب کی حد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ فارغ التحصیل (گریجویشن) ہونے کے بعد بھی طالب علم اپنے آپ کو جدید علمی تصورات سے روشناس کرانے کے لئے کوشاں رہے گا اور یوں زندگی بھر اُس کے سیکھنے کا عمل جاری رہے گا۔