اسمبلیوں کی مدت تین سال کرنے کی تجویز 

جب آئین میں قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال مقرر کی جارہی تھی تو غالباً اس کے پیچھے جنرل ایوب خان کے دورکے متعارف کردہ پانچ سالہ منصوبہ جات کی کامیابی کاتصور تھا پانچ سالہ منصوبہ ایک مکمل معاشی وژن ہوا کرتاتھا اورپھر اس پرہرصورت عملدر آمد کو ممکن بنایاجاتاتھاان منصوبوں کی افادیت کااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ جب پاکستان میں انڈسٹریلائزیشن کی لہر چلی تو مشرق بعید سے جنوبی کوریا نے پاکستان کارخ کیا اورہماری شاگردی  اختیار کرتے ہوئے پانچ سالہ منصوبوں کی تقلید شروع کردی‘ وہاں پر پالیسیوں کے تسلسل کی وجہ سے آج وہ ایشیئن ٹائیگر کہلاتاہے اور ہم عملی طورپر ایشیا کے مرد بیماربنے ہوئے ہیں‘پانچ سال کاعرصہ رکھنے والوں کو یہ علم نہ تھاکہ یہا ں کے سیاسی مزاجوں کے لئے یہ بہت ہی طویل اور ناقابل برداشت میعاد بن جائے گی اور یہ پانچ سال پورے کرنا جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ مشکل بنادیاجائے گا چنانچہ  اگرہم 1970ء کے بعد کی صورتحال کاہی جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ اس دوران گیارہ الیکشن ہوئے گویا گیارہ قومی اسمبلیاں وجودمیں آئیں ان میں سے محض تین اسمبلیاں ہی اپنی آئینی مدت پوری کرپاسکی ہیں بیچ میں آٹھ سال جنرل ضیاء اورتین سال جنر ل پرویز مشرف کامارشل لاء بھی رہا جبکہ 1970ء کے الیکشن کے بعد جو صورت حال پیداہوئی اس کے بعد قومی اسمبلی کااجلاس دوسال بھی نہیں منعقد ہوسکاتھاگویا ان 53برس میں سے ہم نے تیرہ سال تو ویسے ہی ضائع کردیئے باقی رہ جاتے ہیں چالیس سا ل تو اگر حساب لگایا جائے تو اس دوران جو گیارہ قومی اسمبلیاں منتخب ہوئیں ان کے حصہ میں اوسطا تین سال کاعرصہ ہی آتاہے یعنی ہم اپنی متلون مزاجی اورعدم برداشت کی وجہ سے پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کے لئے تیارہی نہیں حیرت ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی شامل رہے ہیں جنہوں نے 1973ء کے آئین کی تیاری میں کرداراداکیا اور اس تاریخی دستاویز پر ان کے دستخط بھی ہیں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو ہارنے والی جماعتیں روز اول سے دھاندلی کاالزام عائد کرکے مخالفت برائے مخالفت کی فضاء پیداکرکے کوشش کرتی ہیں کہ جلد سے جلد قومی اسمبلی کی چھٹی کروا کرنئے الیکشن کی را ہ ہموار کی جاسکے 1988ء سے 1999ء تک کے گیارہ برس کے دوران چاربار انتخابات ہوئے‘مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی دودو با ربرسراقتدار آئیں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں نے ہی ایک دوسرے کو پانچ سال تک برداشت کرنے کاحوصلہ پیدانہ کیا یوں گیارہ برس بعد ملک ایک اور طالع آزما کے ہتھے چڑھ گیا‘جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن کاڈول ڈالا گیا تو تمام اہم جماعتوں نے بائیکاٹ کردیا تھا صرف مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے الیکشن میں حصہ لیا جس کے بعدایوان میں مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی بنائی گئی یوں مسلم لیگ حکمران جماعت بن گئی ان دنوں حکومت کے خلاف ایم آرڈ ی کے پلیٹ فار م سے بے نظیر بھٹو،عبدالولی خان،مولانافضل الرحمن،نوابزادہ نصر اللہ خان،ملک محمد قاسم،غوث بخش بزنجو،فتح یا ب علی خان،معراج محمد خان اوراصغر خا ن جیسے بڑے نام میدان گرم کئے ہوئے تھے ہمیں یاد ہے کہ ان دنوں ائر مارشل اصغرخا ن نے یہاں کے لوگوں کاعمومی مزاج اور سیاستدانوں کے عدم برداشت پر مبنی رویہ دیکھتے ہوئے مسئلہ کے مستقل حل کے لئے ایک نہایت دلچسپ تجویزدی تھی ان کاکہناتھاکہ پانچ سال کاعرصہ بہت طویل ہوتاہے اور مخالفین انتظار نہیں کرسکتے اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ اسمبلیوں کی میعاد پانچ سال سے کم کرکے تین سال کردی جائے تاکہ حکومت گرانے کے لئے سڑکوں پر لوگوں کو نکالنے کی روایت ہی ختم ہوجائے ان کی اس تجویز پر بڑ ی لے دے ہوئی بحث بھی ہوتی رہی اس دوران تین سال کے بجائے میعاد چار سال کرنے کی تجاویز بھی آئیں مگر اس سمت عملی پیشرفت نہ ہوسکی اورپھرجس طرح 1985ء سے 1997تک پانچ بار الیکشن ہوئے اور جس طرح عد م برداشت بر مبنی رویئے سامنے آئے تو اس کے تناظر میں جائزہ لینے پر پتہ چلتاہے کہ ان پانچ اسمبلیوں نے  اوسطاًً پونے تین سال فی اسمبلی گذارے یوں  جس طرح اوپر بیان کیاگیاہے کہ اگر 53برس کاجائزہ لیا جائے تو فی ا سمبلی تین سال کا عرصہ سامنے آتاہے جس کے بعد اب ایک بارپھر ضرور ت ا س امر کی ہے کہ اسمبلیوں کی مدت کمی کی اصغر خان والی تجویز کو پھر سے زیر غور لایاجائے‘تمام سیاسی قوتوں کو بیٹھ کر یا تو رولز آف گیم طے کرکے اس کے مطابق چلنے کی روش اختیار کرناہوگی یا پھر اسمبلیوں کی مدت کم سے کم تین بصور ت دیگر چار سال کرنے کے حوالہ سے مکالمہ کا آغاز کرناچاہئے اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ یہ اعتراض ہی سامنے آسکتاہے کہ اس طرح طویل المد ت پالیسیاں نہیں بن سکیں گی تو عرض یہ ہے کہ ویسے بھی ہمارے ہاں طویل المدت پالیسی بنانے کی زحمت گوارہ ہی کون کرتاہے جس کاواضح ثبوت ملک میں بڑے ڈیموں کی عدم تعمیر ہے ہر جماعت مختصر وقت کے منصوبے لاتی ہے  تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد سمیٹے جاسکیں‘پانچ سالہ منصوبوں کادور تو ختم ہوچکا تاہم اگر اسمبلیوں کی مدت میں کمی پر اتفاق کرلیاجاتاہے تو بعض اہم نوعیت کے طویل المدت منصوبوں کے لئے پارلیمانی فور م تشکیل دیاجاسکتاہے پی اے سی کی طرح قومی اسمبلی کی ایک مستقل کمیٹی بناکر طویل المدت منصوبوں پر عملد رآمد کی نگرانی اسے سونپی جاسکتی ہے‘ اس کمیٹی میں قومی اسمبلی میں موجودتمام چھوٹی بڑی جماعتوں کی یکساں  نمائندگی ہونی چاہیے جس کے بعد اس کمیٹی پر نہ تو اعتراض ہوسکے گا نہ ہی اکثریت کے زعم میں حکومت وقت کمیٹی کو اپنے سیاسی مقاصدکے لئے استعمال کرسکے گی‘اس قسم کی کمیٹی ہی پھرطویل المدت منصوبوں کو یقینی بناسکتی ہے‘ان حالات میں کہ جب ملک ایک بارپھرانتہائی سیاسی عدم استحکام کاشکار ہے قبل ازوقت الیکشن کے مطالبہ میں شد ت کے لئے دو صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کی جاچکی ہیں بہتر یہ ہوگا کہ پہلے یا تو رولز آف گیم تشکیل دیئے جائیں یاپھر اسمبلیوں کی مدت میں کمی کی جائے تاکہ آئینی میعاد پوری کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے یہ تین سالہ مدت مخصوص عرصہ کے لئے بھی رکھی جاسکتی ہے تاکہ اس دوران قوم بروقت الیکشن کے کلچر سے آشنا ہوسکے اس کے بعد یہ مد ت پھر سے پانچ سال کی جاسکتی ہے اس وقت بھی جاپان اور جنوبی کوریا جیسی معاشی طاقتو ں کے ہاتھ ایوان زیریں کی میعاد چار سال ہی ہے‘کیا ہی بہتر ہوکہ الیکشن سے قبل اس حوالہ سے مکالمہ کی راہ ہموار کی جائے۔