اسلام آباد کی ایک جامعہ کے زیراہتمام مکالمے میں ’روس یوکرائن جنگ‘ کے اثرات اور بالخصوص اِس کی وجہ سے یورپ کے خطے میں تبدیلیوں کے حوالے سے منظرنامہ کا جائزہ لیا گیا جس کے واقعات اور حقائق تیزی سے تشکیل پا رہے ہیں نشست کے شرکاء جانتے تھے کہ ”یوریشین لینڈ ماس“ میں یورپ انتہائی مغربی حصہ ہے یہ جغرافیائی‘ تاریخی‘ اقتصادی و ثقافتی تنازعات (فالٹ لائنز) کا مجموعہ رہا ہے جہاں وسطی‘ مغربی‘ مشرقی‘ جنوبی‘ شمالی، جنوب مشرقی یا مشرقی وسطی یورپ کے الگ الگ تنازعات اور مسائل ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یورپی زمینی سرحدیں وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہیں مثال کے طور پر مالٹا جو کبھی شمالی افریقہ کا جزیرہ ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ جنوبی یورپ کا حصہ ہے۔ ’قفقاز (کاکیشیائی) اور ’بلقان‘ آج مکمل طور پر یا جزوی طور پر یورپ کا حصہ ہیں اِسی طرح گرین لینڈ‘ جغرافیائی طور پر شمالی امریکہ کا حصہ ہے جو سیاسی اور ثقافتی طور پر شمالی یورپ کے ساتھ مربوط ہے۔ اسی طرح آرمینیا‘ قبرص اور کچھ سمندر پار علاقے عظیم تر یورپ کا حصہ ہیں۔ تاریخی طور پر یورپ کے موجودہ 57 ممالک رومن‘ غیر رومن‘ یونانی اور لاطینی یورپ رہے ہیں جبکہ اِن کے کچھ حصے مشرقی (بازنطینی) اور مغربی رومن سلطنتوں کے ماتحت تھے۔ یورپ قرون وسطیٰ میں عیسائیوں اور مسلمان کے کنٹرول میں رہا۔ اسے کیتھولک‘ پروٹسٹنٹ اور مشرقی آرتھوڈوکس گرجا گھروں میں تقسیم کیا جاتا تھا جو دونوں طرف سے جزوی طور پر کمیونسٹ (مشرقی بلاک) اور سرمایہ دارانہ (مغربی بلاک) کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ ایک روزہ نشست میں جس ایک دلچسپ پہلو پر سب سے زیادہ بات ہوئی وہ یورپ کے سیاسی رجحانات کی تشکیل اور اِن کی از سر نو تشکیل کے عوامل اور اِن سے جڑی مشکلات کا ذکر تھا‘ جنہیں یورپ کی نشاۃ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ نوآبادیات کا دور تھا۔ جس دوران اہل یورپ نے روشن خیالی‘ فرانسیسی انقلاب اور نپولین کی جنگیں‘ صنعتی انقلاب‘ عالمی جنگیں اور بعد میں سرد جنگ دیکھی۔ 1989ء کے انقلابات کے نتیجے میں دیوار برلن گر گئی اور سوویت یونین تحلیل ہو کر روس (رشیا) بن گیا۔ آج دنیا کے سامنے یورپ کی مثال موجود ہے جس نے جنگیں دیکھیں اور اِن چھوٹی بڑی جنگوں یا تنازعات نے یورپ کو سیاسی‘ فوجی اور معاشی طور پر کمزور کیا اور آج یورپ کو امریکی اثر و رسوخ اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ روس یوکرین جنگ جلد ختم نہیں ہو گی اور امکانات یہ بھی ہیں کہ یہ جنگ پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے جس کے لئے صف بندیاں ہو رہی ہے۔ نیٹو اور وارسا معاہدے کے درمیان سرد جنگ کی فوجی تقسیم دوبارہ سامنے آئی ہے وارسا معاہدے میں اب صرف ایک یورپی رکن باقی بچا ہے۔ روس یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ جس پر یورپی یونین کا اقتصادی اور سیاسی انضمام معاہدہ (1993ء)‘ ڈبلیو ٹی او کی اصولوں کے مطابق تجارت اور جمہوریت کے تصورات لاگو کرنے کے لئے عالمی دباؤ ہے۔ 1949ء میں یورپ کو متحد کرنے‘ جنگیں روکنے اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے تشکیل دی گئی کونسل تقریباً ناکام ہو چکی ہے۔ یوکرین میں جنگ نے معاصر یورپی سیاست میں نمایاں تبدیلیوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ سب سے پہلے تو یورپ کا مرکز تبدیل ہو رہا ہے۔ ستائیس رکنی یورپی یونین‘ جو مغربی یورپ اور نیٹو پر مشتمل ہے کی وجہ سے جنگ پھیل رہی ہے۔ روس یورپی یونین اور نیٹو کے اتحاد کی طرف سے یورپ اپنے سابقہ سوویت یونین اثر و رسوخ ختم کرنے سے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ یورپی یونین مغربی بلقان اور اس سے آگے کے علاقوں سے ملنے کو تیار ہے‘ جس میں یوکرین‘ مالڈووا‘ سویڈن اور فن لینڈ ممکنہ طور پر شامل ہیں۔ یوکرین پہلے ہی یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ ہے۔ نیٹو یا ”نارتھ اٹلانٹک الائنس“ روس کے لئے بہت بڑا فوجی چیلنج ہے۔ اس کے بارہ بانی ارکان اب تیس (یورپ میں اٹھائیس اور شمالی امریکہ میں دو) ہیں۔ پرجوش جرمن چانسلر اولاف شولز نے گزشتہ سال پراگ میں اعلان کیا تھا کہ ”یورپ کا مرکز مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے“ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ”پرانا یورپ نئے یورپ کی پیروی کرتا ہے“ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولینڈ اور چھوٹے بالٹک ممالک یوکرین کی حمایت میں اخلاقی استدلال کے مؤقف پر قائم ہیں‘ کیونکہ فرانس اور جرمنی کی نمائندگی کرنے والا ”پرانا یورپ“ کم از کم ابتدائی طور پر کم ثابت قدم رہا۔ ’یورپ میں نفسیاتی تبدیلی‘ بھی رونما ہو رہی ہے۔ وسطی یورپی اور پولش بظاہر فرانسیسی اور جرمنوں کے مقابلے میں دفاعی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں اور سیاسی و ثقافتی طور پر‘ بڑھتی ہوئی قدامت پسندی یورپ کو متحد کرنے کے بجائے اِسے تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ یورپ پھر سے مسلح ہو رہا ہے۔ پولینڈ اپنی فوج کے حجم کو تقریباً دوگنا کر رہا ہے اور اسلحے کی خریداری کی دوڑ میں شامل ہے۔ جرمنی اپنی فوج کی تعمیر نو کر رہا ہے۔ یوکرین یورپ اور امریکہ سے ہتھیاروں اور سازوسامان لے رہا ہے۔ سرد جنگ کے پہلے دور کے خاتمے کے بعد یورپ ایک بار پھر امریکہ کے برابر کھڑا دکھائی دے رہا ہے اور اِس صورتحال میں یورپ اپنا معاشی توازن بنانے کی کوشش میں ہے۔ کم قیمت روسی توانائی اور دیگر تجارت میں اچانک کمی سے یورپی ممالک متاثر ہیں اور اپنی معیشتوں کو از سر نو ترتیب دے رہے ہیں اور اِس پورے عمل میں یورپی ممالک روس سے دور ہو رہے ہیں اور اِن کا معاشی انحصار چین کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ مشرقی یورپ‘ خاص طور پر جنگ سے تباہ حال یوکرین‘ بین الیورپی ترقی کے لئے بہت بڑا امکان ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جنگیں عموماً معاشی ترقی کو فروغ دیتی ہیں اور یورپ میں بھی یہی ہو رہا ہے جہاں پولینڈ نمایاں ہے جس نے یوکرائن کے پناہ گزینوں کے بڑے حصے کو قبول کیا ہے اور یوکرین کو اسلحے کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ پولینڈ ایک فرنٹ لائن ریاست کی حیثیت سے روس یوکرائن جنگ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پولینڈ اس صورتحال سے کس طرح فائدہ اٹھاتا ہے اور مستقبل کے لئے اُس کی منصوبہ بندی کن اہداف پر مرکوز ہے۔