تفہیم و تحقیق کا امتحان

کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ انتظام و انصرام کے عہدوں پر اہلیت اور قابلیت کے مطابق افراد کی تعیناتی کا عمل بخوبی انجام پاتا رہے اس حوالے سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا کردار نہایت اہم اور لائق تحسین ہے اس ادارے نے نہایت شفاف اور قابل اعتماد طریقہ کار وضع کیا ہے جس سے سول اداروں کو اہل اور قابل افراد کی فراہمی کا عمل تسلسل کیساتھ جاری ہے۔فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے زیرانتظام گریڈ سترہ کے افسران کی بھرتی کے لئے ’سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کا حالیہ ملک گیر سالانہ امتحان میں انگریزی کا پرچہ اس حوالے سے خاص طور پر قابل ذکر ہے‘مذکورہ پرچے میں دیئے گئے مختلف موضوعات میں سے اُمیدواروں کو ایسا مقالہ (مضمون) تحریر کرنا تھا جن سے اُن کے وسیع مطالعے پر مبنی صلاحیتوں اور مہارتیں عیاں ہوں جیسا کہ وہ کسی مسئلے کی کھوج لگانے میں کس طرح سوچتے ہیں۔ اُن کی سوچ کس قدر مربوط و منظم ہوتی ہے۔ وہ کس قدر تنقیدی تجزیہ کرنے صلاحیت رکھتے ہیں اور عمومی تصور یہی ہے کہ کسی موضوع کا ’تنقیدی تجزیہ‘ کرنا کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ’سی ایس ایس‘ کی تیاری کے لئے ہر سال فرضی پرچہ جات اور کتابیں تیار کرنے کا کاروبار کروڑوں روپے حجم رکھتا ہے اور اِس مرتبہ تمام اندازوں اور معلومات کے برعکس انوکھے موضوعات پر مضامین لکھنے کو کہا گیا جس نے طوطے کی طرح رٹے رٹائے جملوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی۔جبکہ صرف وہی امتحانی اُمیدوار مناسب مقالہ لکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے اصل تفہیم‘ تخلیقی کھوج اور تنقیدی تجزیہ جیسے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ یعنی امتحانی تیاری کی تھی۔ اِس مرتبہ قابل قیاس موضوعات کو نظر انداز کیا گیا اور پرچے میں جہاں دیئے گئے موضوعات آسان تھے وہیں مجبوری یہ تھی کہ مقررہ وقت میں اور امتحانی ہال میں بیٹھے ہوئے‘ بنا کسی سے مدد لئے مضمون لکھنا پڑتا تھا۔ یہ کام صرف وہی امیدوار کام کر سکتے تھے جنہوں نے اصل مضامین لکھنے کی مشق کر رکھی تھی۔ پہلے مضمون کا موضوع تھا: ”جوانی میں تعلیم پتھر میں نقش نگاری کی طرح ہے۔“ بہت سے امیدوار جنہوں نے تعلیم کے بارے میں متعدد موضوعات کو یاد کر رکھا تھا اُنہیں ”جوانی“ اور ”بچپن“ جیسے استعاروں کو سمجھنے میں غلطی ہوئی حقیقت میں موضوع یہ تھا کہ کم عمری میں‘ نوجوان اِس قابل ہوتے ہیں کہ اُن کی شخصیت کو کسی بھی شکل و صورت میں ڈھالا جا سکے‘ مضمون کو تجزیاتی بنانے کے لئے‘ بحث کو فطرت (موروثیت) اور پرورش (گردوپیش کے ماحول) کے درمیان بحث کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ اِس کے بعد دوسرا (اگلا) موضوع یہ تھا کہ ”جو طاقت کا استعمال کرتا ہے (درحقیقت) وہ استدلال سے ڈرتا ہے۔“ اِس موضوع کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جو استدلال کرنے سے قاصر ہے وہ سننے کے لئے طاقت کا استعمال کرتا ہے یعنی استدلال کی طاقت رکھنے والا کوئی بھی شخص لڑنے کو ترجیح نہیں دیتا (یا اُسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی)۔ یہاں استدلال سے مراد ٹھوس دلیل (منطق) سے کام لینا ہے جو کسی کے مؤقف کے اظہار کے لئے دونوں اطراف (فوائد اور نقصانات) کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔ استدال کی وجہ سے تنازعہ پیدا نہیں ہوتا اور اگر تنازعہ پیدا ہو بھی جائے تو اِس کی مدد سے متحارب فریقین کو مذاکرات کے ذریعے قریب لایا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کا ادارہ (فورم) اِستدلال کی بہترین مثال ہے جو تنازعات طاقت کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے سی ایس ایس امتحانی پرچہ جات کے مضامین میں اگلا دلچسپ موضوع یہ تھا کہ ”احمق بولتا ہے اور عقلمند سنتا ہے۔“ بظاہر یہ موضوع آسان لگتا ہے اور اِس موضوع کا مطلب یہ ہے کہ عقلمند لوگ زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے سننے کی عادت (برداشت) رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں یعنی صبر سے نہ سننے والا نئے خیالات اور معلومات تک رسائی سے محروم ہو سکتا ہے۔ آئن سٹائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی کم بولتا تھا اور زیادہ وقت سننے (غور کرنے) میں گزارتا تھا۔اگلا موضوع ”والدین (ماں اور باپ) کو بچے کی پرورش کے لئے یکساں ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔“ اس موضوع کا مطلب یہ ہے کہ بالعموم والدین بچے کی پرورش کی مساوی ذمہ داری سے گریز کرتے ہیں۔ سی ایس ایس امیدواروں کو اِس کی وجوہات‘ بچے کی نفسیاتی صحت اور خاندانی نظام پر اثرات اور اِس کی وجہ سے سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے بحث کرنا تھی۔ اِس کے بعد کا موضوع ”ایک دوست اندر آتا ہے جب باقی سب باہر چلے جاتے ہیں۔“ موضوع سے متعلق وضاحتی مضمون تحریر کیا جا سکتا ہے جو ایک دوست کی مدد سے لیکر اُس کے اعتماد تک کے پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔اگلا دلچسپ موضوع تھا ”آن لائن (انٹرنیٹ کی مدد سے) سیکھنا نہ صرف آسان بلکہ روایتی طریقہئ تعلیم سے زیادہ مؤثر ہے۔“ اس موضوع کا مطلب یہ ہے کہ روایتی تعلیم کو ایک درجہ بلند‘ مزید آسان اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ اِس حوالے سے ’سی ایس ایس امیدوار‘ کو روایتی اور غیرروایتی تدریسی طریقوں کے موازنے اور اِن سے متعلق کسی ایک مؤقف کے حق میں بیان و دلائل دینا تھے۔ اگلا دلکش موضوع تھا ”ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ انحصار ہونے لگا ہے۔“ موضوع کا مطلب ’انحصار‘ نہیں بلکہ ”زیادہ انحصار“ اور ٹیکنالوجی سے جڑی رکاوٹیں اور الجھنوں پر بحث کرنا ہے چونکہ ٹیکنالوجی ناگزیر ضرورت بن چکی ہے اِس لئے کوئی بھی شخص اِس کا باآسانی عادی ہوسکتا ہے۔ سی ایس ایس امیدوار کو اِس انحصار کی وجوہات کا ذکر کرنا تھا کہ مثبت اثرات اور حد سے زیادہ انحصار سے بچنے کے طریقے کیا ہیں۔ اِس کے بعد اگلا محرک موضوع تھا ”صحت مند کھانے کی حوصلہ افزائی کے لئے‘ سافٹ ڈرنکس اور جنک فوڈ پر زیادہ ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔“ مطلب یہ کہ سافٹ ڈرنکس اور تلی ہوئی یا فوری تیار ہونے والی اشیا (جنک فوڈ) غیر صحت مند کھانے کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں اور انہیں ترک کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اِن کی قیمت عام آدمی کی قوت خرید سے ٹیکس عائد کر کے بلند کر دی جائے جبکہ ٹیکس عائد کئے بغیر بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جنک فوڈز کو بنیادی کھانے کی جگہ استعمال نہیں کرنا چاہئے اور اِس پہلو سے کئے گئے تنقیدی تجزیے سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ’جنک فوڈز‘ کو مختصر وقت میں فوری توانائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے لیکن اِسے عادت نہ بنایا جائے جیسا کہ شہر کی مصروف زندگی میں کیا جاتا ہے۔