چین کا ایک اور اہم قدم

چین قطب جنوبی کے قریب منجمد خطے انٹارکٹیکا میں اپنا ایک سائنسی مرکز قائم کر رہا ہے جس کا مقصد سمندری نگرانی سے متعلق سیٹلائٹس کے نیٹ ورکس پر نظر رکھنا ہے۔انٹارکٹیکا انتہائی سرد اور برف پوش علاقہ ہے جہاں انسانی آبادی موجود نہیں، تاہم کچھ سائنسی تجربہ گاہیں قائم ہیں۔چین سائنسی شعبے میں اپنی صلاحتیوں میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے اور وہ امریکہ اور روس کے بعد کسی انسان کو خلا میں بھیجنے والا تیسرا ملک بن چکا ہے۔چونکہ چینی خلابازوں کے لئے زمین کے گرد تقریبا ًچار سو میل کی بلندی پر گردش کرنے والے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کا دروازہ بند ہے، اس لئے وہ خلا میں اپنا ایک الگ اسٹیشن تعمیر کر رہا ہے جو زیادہ تر مکمل ہو چکا ہے اور اس میں چینی خلاباز رہ رہے ہیں۔چین کی جانب سے سیٹلائٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد اور خلاء  میں اس کے عزائم کو تقویت دینے کے لئے زمین پر سائنسی سٹیشنوں کے عالمی نیٹ ورک نے کچھ ملکوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جنہیں خدشہ ہے کہ چین انہیں جاسوسی کے لئے استعمال کر سکتا ہے، تاہم چین ان خدشات کو مسترد کرتا ہے 2020 میں سویڈن کی جس سرکاری خلائی کمپنی نے چین کو اپنے خلائی جہازوں کی پرواز اور ان کے ڈیٹا کی ترسیل کے لئے زمینی سٹیشن فراہم کیے تھے، اس نے یہ کہتے ہوئے چین کے ساتھ اس معاہدے کی تجدید سے انکار کر دیا ہے کہ اب جغرافیائی سیاست کی صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔چین کے سائنسی سرکاری جریدے  چائنا اسپیس نیوز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چائنا ایروسپیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی گروپ یہ مراکز انٹارکٹیکا میں جانگ شان کے ریسرچ بیس میں تعمیر کرے گا۔ جانگ شان ریسرچ بیس انٹارکیٹکا میں قائم چین کے دو مستقل سائنسی مراکز میں سے ایک ہے جس کا ٹینڈر چین نے ساڑھے پانچ ملین ڈالر سے زیادہ کی بولی دے کر جیتا تھا۔انٹارکٹیکا میں سائنسی مرکز کے پراجیکٹ کے بارے میں چین کی جانب سے مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کیں گئیں لیکن  چائنا نیوز  میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دو خیالی تصاویر کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بحرہند کے جنوب میں مشرقی انٹارکٹیکا میں چار زمینی سائنسی مراکز بنائے جائینگے۔چائنااسپیس نیوز کے مطابق، یہ منصوبہ وسیع تر اقدامات کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کی سمندری معیشت کی ترقی اور چین کو سمندری طاقت میں تبدیل کرنا ہے۔پچھلے سال سروے کرنے والے ایک چینی فوجی بحری جہاز کے سری لنکا کی بندر گاہ ہمبنٹوٹا میں لنگر انداز ہونے پر بھارت کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی تھی، جس کے بارے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اس کا مقصد سیٹلائٹس، راکٹوں اور میزائلوں کی لانچنگ کی ممکنہ جاسوسی تھا۔ یاد رہے کہ یہ بندرگاہ چین کی سرمایہ کاری سے تعمیر کی گئی ہے۔گزشتہ سال اکتوبر میں چین نے خلا ء میں واقع اپنے خلائی سٹیشن میں آخری تین حصوں کو بھی جوڑ دیا تھا۔ جس سے ناسا کے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے بعد یہ زمین کے مدار میں گردش کرنے والا دوسرا مستقل خلائی سٹیشن بن گیا ہے۔اس طرح اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ چین نے امریکہ کو ہر شعبے میں جواب دینے کی جو تیاری کی ہے اس کے نتائج اب سامنے آنے لگے ہیں۔