جنرل پرویز مشرف مرحوم 

وہ پاکستان کے چوتھے آمر تھے انہوں نے اس وقت اقتدار پر قبضہ کیاتھا کہ جب ملک پر مسلم لیگ ن کی بھاری مینڈیٹ کی حامل حکومت قائم تھی اور میاں نوازشریف وزیر اعظم تھے نوازشریف کی طاقت کاانداز ہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ مختصر عرصہ میں طاقتور چیف جسٹس سجاد شاہ ،صدرمملکت فاروق لغاری  اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرچکے تھے اس لحاظ سے وہ بھٹو سے بھی زیادہ طاقتور وزیرا عظم ثابت ہورہے تھے پھراچانک حالات اور قسمت سے پلٹا کھایا ان کاٹکراؤ اسی آرمی چیف کے ساتھ ہوا جن کووہ خود ہی لائے تھے اورپھر ملک چوتھے مارشل لاء کی نذرہوگیا اگرچہ اس کو مارشل لاء کانام نہیں دیا گیا مگر وہ بہرحال چوتھے ڈکٹیٹر تھے انہوں نے جب میاں نوازشریف کی بھاری مینڈیٹ کی حامل حکومت کو ہٹایا تو اس وقت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے نوازحکومت کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتیں میدان میں تھیں اپوزیشن قائدین کے جلسے جلوسوں کا سلسلہ عروج پر تھا جن میں پیپلز پارٹی،اے این پی،جماعت اسلامی،جے یو آئی وغیرہ شامل تھیں بارہ اکتوبر کو انہوں نے فضاء سے ہی نوازشریف حکومت کاخاتمہ کرتے ہوئے حکمرانوں کو گرفتار کرایا اورجب فضاء سے اترے تو برسرزمین سب کچھ بدل چکاتھا بارہ اکتوبر کے بعد کے اخبارات گواہ ہیں کہ ان کو ملک کی تمام سیاسی قوتوں نے خوش آمدیدکہابے نظیربھٹو،مولانا فضل الرحمن،خان عبدالولی خان،قاضی حسین احمد المختصرسوائے مسلم لیگ ن کے جو کہ متاثرفریق تھی باقی تمام سیاسی قوتوں نے دل کی گہرائیوں سے ان کو خوش آمدید کہا پھر قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کی خاطر انہوں نے عدالت سے رجوع کیاجسٹس منیر کامتعارف کردہ نظریہ ضرورت ایک بارپھر کام آیا اور ان کو چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر تین سال تک کام کرنے کی اجازت دے دی گئی جب 2002کے انتخابات ہوئے تو ان کی قائم کردہ ق لیگ بڑ ی جماعت بن کر سامنے آئی اوریوں جمہوریت اور آمریت کی آمیزش کانیا دور شروع ہوگیا یہ ملک کی طاقتور ترین شخصیت بن گئے ان کامکا بہت مشہور ہوا بہت سی کامیابیاں اور ناکامیاں ا ن کے حصہ میں آئیں بہت سے خون ان کی گردن پر رہے، سانحہ لال مسجد،سانحہ گیارہ مئی کراچی،نائن الیون کے بعد دہشتگردی کی لہر،ایک لمبی فہرست موجود ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آمر ہونے کے باوجود بہت سے سیاسی حکمرانوں سے زیادہ کشادہ دل تھے انہی کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی داغ بیل ڈالی گئی نادرا،اوگرا،نیپر ا،ایچ ای سی جیسے ادارے قائم ہوئے مگر جب زوال آیا تو سب ساتھ چھوڑتے چلے گئے اورپھر وہ تنہائی کاشکارہوتے گئے اپنی سیاسی جماعت بنائی مگر 2013ء کے انتخابات میں ناکامی ان کی جماعت کامقدر رہی جس کے بعدعملی طورپر گوشہ نشین ہوتے چلے گئے یہ دس نومبر 2015کادن تھاکہ جب ہم آج سنڈے میگزین کے لیے ان کاانٹرویو کرنے زمزمہ کلفٹن کراچی میں ان کی رہائش گاہ گئے ہم نے جو وقت متعین کیاتھا کراچی کی ٹریفک کی وجہ سے اس سے چالیس منٹ تاخیر سے پہنچے ان کاسٹاف ہمارے انتظار میں تھا ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایاگیا تھوڑی دیر بعد دنیاکی طاقتور ترین
 افواج میں سے ایک کے سابق سربراہ اور واحد اسلامی ایٹمی قوت ریاست کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ہمارے سامنے تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی پشاور سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ تپاک سے ملے۔ڈیڑھ گھنٹہ ان کے ساتھ طے ہوا تھا جس میں سے چالیس منٹ تو ہم ضائع کرچکے تھے چنانچہ انٹرویوکے دوران ہی ان کے عملہ نے یاد دہانی کرائی کہ دیگر مہمان انتظار میں ہیں جنر ل پرویزمشرف نے کہاکہ ابھی انتظار کریں کچھ وقت بعد ان کاعملہ پھر یاد دہانی کے لیے اندر آیا تو جنرل صاحب غصہ میں آگئے کہنے لگے یار یہ لوگ پشاور سے آئے ہوئے ہیں ابھی میرا ٹائم انہی کاہے لہٰذا مہمانوں کو انتظارکاکہیں۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے کھل کر ہر موضوع پر با ت کی ہم نے ان کے انداز میں غرور نہیں پایا ان دنوں ان پراسی بیماری کاابتدائی اثر صاف دکھائی دے رہاتھا جس کی وجہ سے پھر ان کے آخری ایام بہت تکلیف میں گذرے چائے پیتے وقت ان کے ہاتھ میں رعشہ صاف محسوس کیا جاسکتاتھا
 ان کی گفتگو میں بلا کی بے تکلفی اور برجستگی تھی یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ یہ کسی بھی اخبار کے لیے ان کی زندگی کاآخری انٹرویو تھا۔ اس کے چند ہفتے بعدہی وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک چلے گئے اوریہ قیام بوجوہ طویل ہوتا چلاگیا پھر جب خصوصی عدالت کی طرف سے ا ن کے خلاف سخت ترین فیصلہ سامنے آیا تو ان کی واپسی کے تمام دروازے عملی طورپر بند ہوگئے۔باہر بیٹھ کر وہ مختلف ممالک میں لیکچرز کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعہ مختلف پروگراموں کابھی حصہ بنتے رہے یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ہرفورم پر پھر اپنے ملک کاکیس بہترین انداز میں پیش کیا اور اکثر مواقع پر مدمقابل کو لاجواب کرکے رکھ دیا۔خاص طور پر بھارتی میڈیا کے ساتھ بات چیت اور انٹرویوز میں انہوں نے جس طرح انہیں ہر موضوع پر منہ توڑ جواب دئیے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ہمارے ساتھ انٹرویومیں انہوں نے بہت سے حقائق کھل کرتسلیم کیے ان کے زوال کی بڑی وجہ بننے والے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کے فیصلے کے حوالہ سے انہوں نے تسلیم کیا کہ ریفرنس انہوں نے ہی بھجوایا اورتب بھجوایاکہ جب وزراء اور افسران ایک ایک کرکے اپنی فریاد کرتے چلے گئے انہوں نے ریفرنس کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کی کوشش ہی نہیں کی حالانکہ ان دنوں اس حوالہ سے کافی بحث مباحثہ ہوا تھا اسی طرح مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اپنے دور حکومت میں ہونے والی پیشرفت کے حوالہ سے بتایاکہ اس معاملہ میں ان کی لندن میں عمر عبداللہ کے ساتھ خفیہ ملاقات بھی ہوئی تھی ا ن کاکہناتھاکہ میں اور منموہن سنگھ  دونوں سرکریک اور سیاچن کے معاملے پر دستخط کرنے کیلئے تیار ہو گئے تھے کشمیر کے حوالہ سے بھی دورہ بھارت میں کافی پیشرفت ہوئی تھی اورفیصلہ ہواتھاکہ منموہن سنگھ کے دورہ پاکستان کے موقع پر پہلے مرحلہ میں سرکریک اور سیاچن کے معاہدے پردستخط ہوجائیں گے مگر وہ نہیں آئے یو ں ہم نے ایک تاریخی موقع گنوا دیا۔ آج جنرل پرویز مشرف اس دنیا میں نہیں رہے مگر وہ دیگرحکمرانوں کی طرح یہ درس دے گئے ہیں یہ طاقت،یہ عہدے،یہ عشرت وعشرت مستقل چیزیں نہیں ان میں اتار چڑھاؤ آیا کرتے ہیں ہمیشہ رہنے والی ذات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے کاش کہ کوئی عبرت حاصل کرے پاکستان کے ہرسابق حکمران کی زندگی میں کوئی نہ کوئی درس عبرت پوشید ہ ہے مگر ہم ہیں کہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے لئے آمادہ ہی نہیں۔