معاشی ترقی: نظرانداز پہلو

دنیا کے دو تہائی رقبے (حصے) پر پھیلے سمندر بے پناہ وسائل کا ذخیرہ ہے جن سے براہ راست رسائی رکھنے والے ممالک فوائد حاصل کرتے ہیں۔ اِن سمندروں‘ ساحلوں‘ متعلقہ صنعتوں اور کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ”بلیو اکانومی“ بھی کہا جاتا ہے جس کی تعریف عالمی بینک کی زبانی یہ ہے کہ ”بلیو اکانومی سمندری ماحولیاتی نظام کی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے اقتصادی ترقی‘ بہتر معاش اور ملازمتوں کے لئے سمندری وسائل کا پائیدار استعمال ہے۔“ یورپی کمیشن کے مطابق ”بلیو اکانومی کا مطلب سمندروں اور ساحلوں سے متعلق معاشی سرگرمیاں ہیں۔“ معلوم ہوا کہ بلیو اکانومی میں شامل اقتصادی سرگرمیاں سمندر پر مبنی قدرتی وسائل  جیسا کہ مچھلی‘ ہائیڈرو کاربن اور معدنیات کی تلاش سے لے کر سمندر سے متعلق صنعتوں‘ بندرگاہوں‘ شپنگ‘ جہاز سازی‘ ساحلی سیاحت‘ قابل تجدید توانائی اور میرین بائیو ٹیکنالوجی تک شامل ہیں۔ وسیع پیمانے پر بات کی جائے تو بلیو اکانومی کے 6 شعبے ہیں جن کا سالانہ حجم (مالیت) چوبیس کھرب ڈالر ہے۔ دنیا میں ہر دس ملازمتوں میں سے ایک ملازمت سمندر سے جڑی ہوئی ہے۔ سال 2010ء میں عالمی سطح پر بلیو اکانومی کا حجم قریب ڈیڑھ کھرب ڈالر تھا جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔سمندر سے حاصل ہونے والی پیداوار کا اہم جز ”مچھلی“ ہے۔ مچھلی کی عالمی صنعت کا حجم اس وقت 113.2 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان میں مچھلی کی صنعت کا حجم 1.2 ارب ڈالر جبکہ اِس صنعت سے 18 لاکھ ملازمتیں منسلک ہیں تاہم مچھلی کے غیر قانونی شکار‘ مچھلی پکڑنے کے نقصان دہ طریقوں کا استعمال اور آبی (سمندری) آلودگی کی وجہ سے مچھلیوں کے ذخیرے کا حد سے زیادہ استحصال ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان کی سمندری حدود میں مچھلیوں کی بہت سی اقسام معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ کنٹرولڈ ماحول میں مچھلی کی افزائش جیسے جدید طریقوں سے مچھلی کی نسل کشی اور سمندری ماحول کی حفاظت ممکن ہے جبکہ جنگلی مچھلی پر انسانی خوردنی انحصار کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ مچھلی کے بعد ایک اور اہم سمندری حیات مینگرووز (جنگلات) ہیں‘ جو نہ صرف اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں بلکہ ماحولیاتی نظام کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے چھٹے سب سے بڑے مینگرووز جنگلات پائے جاتے ہیں جو قریب 1 لاکھ 30 ہزار ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ مینگرووز کے درخت عمومی (ٹراپیکل) جنگلات کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی خطرات سے تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ساحلی (ڈیلٹا) علاقوں میں نائٹریٹس اور فاسفیٹ کو جذب کرکے سمندری آلودگی کم کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں ہیں۔ مینگرووز مچھلیوں‘ جھینگوں اور کیکڑوں سمیت تین ہزار سے زائد سمندری جانوروں کی افزائش گاہ (نرسری) بھی ہوتے ہیں۔ اقتصادی ترقی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ’مینگرووز‘ ایکو ٹورازم‘  کشتی رانی‘ کایاکنگ‘ ماہی گیری‘ پرندوں کو دیکھنے اور آبی زراعت کا اہم حصہ ہیں۔ اِن جنگلات کا ایک استعمال شہد کی مکھی پال حضرات بھی کرتے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان (ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان) کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق مینگرووز انڈس ڈیلٹا میں تقریبا پانچ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنوگرافی کے مطابق پاکستان کے سمندری علاقے میں سولہ ہزار ملین بیرل سے زیادہ تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ انٹرنیشنل سی بیڈ  اتھارٹی کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے براعظم شیلف میں تقریبا چودہ ہزار ملین ڈالر مالیت کے تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ آئی ایس اے کی تحقیق کے مطابق تقریبا چوالیس لاکھ ٹن گہرے سمندر میں معدنیات کے ذخائر موجود ہیں اور ای ای زیڈ کے مطابق سائنسی بنیادوں پر کھوج نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان زیرسمندر ذخائر سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے سے قاصر (محروم) ہے۔سمندروں کے تجارتی ساحل (بندرگاہیں) کسی بھی ملک کی معاشی لائف لائن ہوتی ہیں۔ پاکستان کی تین بڑی بندرگاہیں کراچی‘ بن قاسم اور گوادر ہیں۔ اِن میں کراچی اور بن قاسم کی بندرگاہیں 75ہزار ڈیڈ ویٹ ٹن وزنی بحری جہازوں کو لنگر انداز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس میں اضافہ کرنے سے آبنائے ہرمز کی سٹریٹجک راہداری پاکستان کے لئے اقتصادی ترقی کا مرکز (ذریعہ) اور ٹرانزٹ اور ٹرانس شپمنٹ تجارت کے ذریعے عالمی منڈیوں کے لئے مؤثر ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ جہاز سازی اور مرمت میں پاکستان کا حصہ کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس تک محدود ہے جس کی گنجائش چھبیس ہزار ڈی ڈبلیو ٹی تک محدود ہے‘ جو خطے کے دیگر شپ یارڈز کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ درحقیقت چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی کامیابی کا دارومدار گوادر پورٹ پر ہے لیکن قومی پرچم بردار جہازوں کی محدود تعداد کی وجہ سے پاکستان غیرملکی پرچم بردار جہازوں کو سالانہ تقریبا دوسو ارب ڈالر ادا کر رہا ہے۔ جہاز سازی اور مرمت میں پاکستان کا تعاون کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس تک محدود ہے جبکہ گوادر میں نیا شپ یارڈ بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جو چین کے اشتراک سے تیار کیا جائے گا تاہم اِس پر ابھی کام شروع نہیں ہوا۔ بلیو اکانومی نسبتاً نیا تصور ہے تاہم یہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی کے اس نظرانداز پہلو کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بلیو اکانومی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے غوروخوض‘ تحقیق اُور سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تعلیمی اِداروں‘ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں‘ تھنک ٹینکس‘ کاروباری و سرمایہ کار افراد اور سب سے بڑھ کر عوام کو ”بلیو اکانومی“ کی ضروریات و فوائد سمجھانے (منتقل) کرنے کی ضرورت ہے جو یقینا آسان کام نہیں ہے اور اس کے لئے بڑی کوشش اور مالی و افرادی وسائل کی ضرورت ہے۔ ”میری ٹائم ڈومین“ میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ روایتی حکمت سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے لہٰذا جدید ٹیکنالوجی اپنانا بھی مقصد ہونا چاہئے۔ کسی بھی شعبے کی ترقی کے تین مراحل (شناخت‘ رابطہ اور تحریک) ہوتے ہیں جن کا یکساں اطلاق ”بلیو اکانومی“ پر بھی ہوتا ہے اِس سلسلے میں سٹیک ہولڈرز کی نشاندہی‘ سرمایہ کاروں سے رابطہ اور مراعات کے ذریعے تحریک (بلیو اکنامی میں دلچسپی) پیدا کی جا سکتی ہے اور اِن اہداف کے حصول کے لئے جامع لائحہ عمل اور بلیو اکنامی کے تصورات و ضروریات سے متعلق وضاحت (تفہیم) کی ضرورت ہے۔دنیا میں کئی ترقیافتہ ممالک کی معیشتوں کا انحصار بلیو اکانومی پر ہے یعنی وہ سمندر سے حاصل ہونے والی پیداوار کے ذریعے دنیا پر راج کر رہے ہیں اگر ہم صرف دو شعبوں پر ہی توجہ مرکوز کریں تو تمام معاشی مسائل کا خاتمہ ہو سکتا ہے ان میں ایک تو بلاشبہ زراعت ہے جبکہ دوسرا شعبہ سمندر سے حاصل ہونے والی پیداوار ہے جسے ترقی دینا وقت کی ضرورت ہے۔ موجودہ مشکل حالات سے نکلنے کے لئے روایتی حکمت عملی اور روایتی شعبوں میں سرمایہ کاری سے زیادہ ضروری ہے کہ ترجیحات میں تبدیلی لا کر نئے اہداف کا تعین کیا جائے اور ان کے حصول کے لئے منظم اور مربوط کوششیں کی جائیں اس حوالے سے عملی اقدامات جس قدر جلد اور تیزی کے ساتھ اٹھائے جائیں اتنے ہی بہتر اور موثر نتائج سامنے آئیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ سمندری پیداوار ملک کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔