ترکیہ زلزلہ اتنا ہلاکت خیز کیوں تھا؟

ہماری زمین کی بیرونی سطح یا پرت مختلف سطحوں کے ملاپ سے بنتی ہے جنھیں پلیٹس یا تھالیاں کہا جاتا ہے۔اکثر یہ پلیٹس حرکت کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن مختلف پلیٹس کے درمیان رگڑ کی وجہ سے ان میں حرکت نہیں ہو پاتی لیکن کبھی کبھار تھالیوں کے درمیان دبا ؤاتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک تھالی اچانک اپنی جگہ سے کھسک جاتی ہے جس سے زمین کی سطح ہِل جاتی ہے۔پیر کو آنے والے زلزلے میں شمالی کی جانب حرکت کرتی ہوئی عریبین پلیٹ اور اناطولین پلیٹ میں رگڑ پیدا ہو گئی تھی۔پیر کی صبح شام کی سرحد کے قریب ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں شدید زلزلے کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔زلزلے کا مرکز غازی عنتیپ کے شہر کے قریب کا علاقہ تھا اور پہلے شدید جھٹکے کے کچھ ہی دیر بعد یہاں ایک اور زلزلہ آیا اور آفٹر شاکس کا سلسلہ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جاری رہا۔یہ ایک شدید زلزلہ تھا‘ اس کی شدت 7 اعشاریہ 8 ریکارڈ کی گئی اور سرکاری حکام کے مطابق یہ ایک بڑا زلزلہ تھا۔زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی پر نہیں تھا اور حکام کے مطابق یہ گہرائی 18 کلومیٹر تھی، اسی لیے متاثرہ علاقے میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں‘گذشتہ دس برس میں ایسے صرف دو زلزلے آئے جن کی شدت پیر کے زلزلے کے برابر تھی اور اس سے پہلے کے عشرے میں ایسے چار زلزلے ریکارڈ کیے گئے تھے۔تاہم کسی بھی زلزلے سے آنے والی تباہی کا انحصار صرف اس پر نہیں ہوتا کہ اس کی شدت کیا تھی‘یہ زلزلہ صبح سویرے اس وقت آیا جب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے‘ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ عمارتیں کس قدر مضبوط یا کمزور تھیں۔یونیورسٹی آف پورٹسمتھ میں آتش فشاں پر تحقیق کی ماہر، ڈاکٹر کارمن سولانا کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے جنوبی ترکی اور خاص طور پر شام میں ایسی عمارات کی تعداد کم ہی ہے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکتی ہیں۔اسی لیے زلزلے سے تباہی سے بچنے کا انحصار امدادی کاروائیوں پر ہے۔کہ ان میں سے کتنے لوگوں کو زندہ نکال لیا جاتا ہے48 گھنٹے گزرنے کے بعد زندہ بچنے والوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔ترکی اور شام کی سرحد کے قریب کے اس علاقے میں گذشتہ سو سال میں کوئی شدید زلزلہ نہیں آیا اور کوئی ایسی علامات بھی نہیں دیکھی گئیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا کہ یہاں اتنا شدید زلزلہ آ سکتا ہے۔اسی لیے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں زلزلے سے بچا ؤکا نظام بھی قدرے کم دکھائی دیتا ہے‘13اگست 1821ء کو بھی اس علاقے میں سات اعشاریہ چار کی شدت کا زلزلہ آیا تھا تاہم اس کی شدت پیر کے زلزلے سے خاصی کم تھی‘اس کے باوجود اس زلزلے کے نتیجے میں یہ علاقہ بری طرح متاثر ہوا تھا اور صرف حلب کے شہر میں سات ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں‘ 19ویں صدی کے اس بڑے زلزلے کے ایک برس بعد تک اس علاقے میں آفٹر شاکس آتے رہے۔پیر کی صبح کے زلزلے کے بعد بھی جھٹکوں کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔سات اعشاریہ آٹھ کی شدت کے جھٹکے کو ایک بڑا زلزلہ کہا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں عموما خاصی تباہی ہوتی ہے۔آٹھ سے زیادہ کی شدت کا جھٹکا انتہائی تباہ کن ہوتا ہے جس سے زلزلے کے مرکز کے ارد گرد کی آبادیاں مکمل ملیا میٹ ہو سکتی ہیں‘2011میں جاپان کے ساحل کے قریب سمندر میں آنے والے زلزلے کی شدت نو تھی جس سے نہ صرف ساحلی علاقے میں بہت زیادہ تباہی دیکھنے میں آئی تھی بلکہ اس نے انتہائی بلند سمندری لہروں کے طویل سلسلے کو جنم دیا تھا۔