سپر ٹیکس

ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری کیلئے آمدن میں اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے اور اِس سلسلے میں محصولات کی شرح میں ردوبدل (اضافہ) کیا گیا ہے۔ معاشی بحالی اقدامات کے تحت بینکوں‘ آٹوموبائلز (موٹر گاڑی ساز اداروں)‘ سیمنٹ‘ کیمیکلز‘ چینی‘ توانائی اور ٹیکسٹائل کمپنیوں سمیت تمام شعبوں پر چار فیصد جبکہ دیگر 10شعبوں پر تیرہ فیصد ”سپر ٹیکس“ عائد کیا گیا ہے اور یہ حکومت کے آمدن و اخراجات میں عدم توازن کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے جس کی جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ  متوجہ کیا ہے اور اِسے اپنے قرض بحالی پروگرام سے مشروط کر رکھا ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ پاکستان کے داخلی معاشی و بیرونی معاشی ساکھ و استحکام کے لئے اہم ہے کیونکہ اِس کے ذریعے ملک کے ممکنہ ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے کا خطرہ ٹل جائے گا لیکن ایک ایسی معیشت جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے کیا اُس میں اِس قدر جان (دم خم) ہے کہ وہ طویل مدت تک ٹیکسوں کا یہ بوجھ برداشت کر پائے گی یعنی بلند ٹیکس کیا طویل مدت تک قابل عمل بھی ہوں گے؟ سپر ٹیکس کا نفاذ مختلف کمپنیوں کے ریکارڈ منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے تاہم دو سال تک پانچ فیصد سے زائد شرح نمو رکھنے والی معیشت میں دراڑیں نمایاں ہیں اور رعایت (سبسڈی) پر مبنی فنانسنگ اور ٹیکسوں سے چھوٹ (ایمنسٹی سکیموں) کی بجائے اب حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ جن شعبوں پر ’10فیصد‘ سپر ٹیکس عائد کیا گیا ہے ان کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان شعبوں کو ماضی میں کسی نہ کسی شکل میں فائدہ دیا گیا اور یہ فائدہ تین صورتوں میں رہا۔ ایک تو حکومت خود اِس شعبے کی سب سے بڑی خریدار رہی یا حکومت نے اجارہ داری قائم کر کے اِنہیں من چاہا منافع کمانے دیا اور تیسرا کسی نہ کسی شکل میں اِنہیں رعایت پر سرمایہ (فنانسنگ) فراہم کیا گیا جس کی خاطرخواہ سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی جس سے ملک میں حسب توقع روزگار یا معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا۔ سرمایہ دار حکومت سے رعایت لیتے رہے لیکن اُنہوں نے معاشی و سماجی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔ ’آئی ایم ایف‘ کے دباؤ پر ہی سہی لیکن موجودہ ’ٹیکس وصولی مہم‘ کے دوران وصول ہونے والا 80 فیصد سے زیادہ ٹیکس بینکوں یا تیل و گیس کمپنیوں سے ہوگا۔ یہ امر لائق توجہ ہے کہ حکومت بذات ِخود بینکوں کی سب سے بڑی صارف ہے اور سب سے زیادہ قرض صارفین نہیں بلکہ حکومت لیتی ہے اور اِسی بنیاد پر بینکوں کی ساٹھ فیصد سے زائد آمدنی کا انحصار ہے۔ درحقیقت حکومت کی جانب سے غیر معمولی 
فنڈنگ کی وجہ سے بینکاری خاصا منافع بخش کاروبار ہے اور جب بینک حکومت کو قرض دے رہے ہوتے ہیں تو اِسے ”خطرے سے پاک“ سرمایہ کاری قرار دیا جاتا ہے جبکہ مسلسل بڑھتی ہوئی شرح سود پر قرض دینے سے بینکوں کے منافع میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے جو اضافی خوشی و اطمینان کا باعث امر ہے۔ حکومت کے مقابلے اگر بینک صارفین کو قرض دیں اور شرح سود میں اضافہ ہو تو صارفین کے لئے قرض کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ معیشت کمزور ہے اور بینک ایسی کسی بھی ناپسندیدہ صورتحال سے بچنے کے لئے صارفین کو قرض جاری کرنے میں احتیاط سے کام لیتی ہے۔ گزشتہ چند برس سے‘ بینک بنیادی طور پر خودمختار قرض لینے کا ذریعہ رہے ہیں اور اب جبکہ بینکوں پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے تو درحقیقت حکومت بینکوں کو دیئے جانے والے منافع کا کچھ حصہ واپس لے رہی ہے۔ اسی طرح مائع گیس کے درآمدی کاروبار سے منسلک ادارے (ایل این جی ٹرمینلز) پر ٹیکس عائد کرنے سے حکومت اُسی منافع کا کچھ حصہ واپس لینا چاہتی ہے جو اُس نے مختلف معاہدوں (آف ٹیک گارنٹیز) کے ذریعے ادا کر رکھا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ سپر ٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس سے مہنگائی کی مجموعی صورتحال میں اضافہ ہوگا لیکن شاید ایسا نہ بھی ہو کیونکہ مہنگائی پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ صرف اضافی ٹیکس جمع کرنے ہی سے نہیں بلکہ عام آدمی پر ٹیکسوں کا دباؤ منتقل کرنے سے روکنے کے لئے کیا کچھ سخت گیر اقدامات کرتی ہے۔قیمتوں کا تعین طلب اور رسد کے درمیان تعلق پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر کسی کاروباری خدمات پر عائد ٹیکس کی شرح زیادہ ہو گی تو اُس کا اثر قیمتوں پر پڑے گا کیونکہ کاروباری ادارے اپنا منافع کم کرنے کی بجائے سارا بوجھ صارفین پر منتقل کرتے آئے ہیں البتہ اگر ایک مختلف حکمت عملی اختیار کی جائے اور کم قیمت خدمات یا مصنوعات کے ذریعے زیادہ فروخت (سیل یا مارکیٹ شیئر) بنایا جائے تو ادارے یا صنعتیں قیمتیں بڑھائے بغیر بھی اپنا 
سالانہ منافع برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اِس میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں جو ایک بات انتہائی واضح (یقینی) ہے وہ یہ ہے کہ رواں مالی سال 2023ء اور آئندہ مالی سال 2024ء کے دوران مہنگائی (افراط زر) برقرار رہے گی اور جہاں تک اضافی ٹیکسوں کی بات ہے تو یہ فوری طور پر صارفین کو منتقل بھی نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ مارکیٹ میں اشیا ء کی قیمتوں کا اپنا ایک توازن ہوتا ہے اور اگر کوئی کمپنی اپنی مصنوعات یا خدمات کی قیمت بڑھا دیں گے تو اُس کے مطمئن (وفادار) صارفین کی بڑی تعداد دیگر کمپنیوں کی کم قیمت مصنوعات خریدنا شروع کر دیں گے اور کسی کمپنی کو اپنی ساکھ و صارفین کا اعتماد حاصل کرنے میں مہینے یا سال نہیں بلکہ دہائیوں تک قیمتیں اور معیار برقرار رکھنے کے علاؤہ تشہیری مہمات پر کثیر مالی وسائل خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ سرمایہ کار ہمیشہ اُن شعبوں کو پسند کرتے ہیں جن پر ٹیکس کی شرح نسبتاً کم ہو جیسا کہ جائیداد کی خریدوفروخت  زراعت اور معیشت کے دیگر بڑے پیمانے پر غیر ٹیکس والے اور غیر دستاویزی حصوں مثلاً سونے امریکی ڈالروں یا اجناس کی خریداری میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور رسمی سرمایہ کاری کی شرح دیگر ہم عصر شعبوں کے مقابلے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر معاشی بحالی کو قرض اور ٹیکسوں میں اضافے کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اِس سے ایک معاشی بحران ملک کو دوسرے بحرانی دور میں داخل کر دے گا اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک معاشی بحالی کیلئے سنجیدہ اصلاحات نہیں کی جاتیں۔حکومتی اداروں کا قومی خزانے پر بوجھ اور سرکاری وسائل میں خردبرد ختم کرنا صرف ’آئی ایم ایف‘ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں بھی ہے اور یہ ’معاشی اصلاحاتی حکمت عملی‘ کا حصہ ہونا چاہئے۔ یکساں ضروری یہ بھی ہے کہ جائیداد کی خرید و فروخت (رئیل اسٹیٹ) اور زرعی اثاثوں (ایگریکلچر ہولڈنگز) کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تاکہ ہر مرتبہ معاشی بحران کے وقت مٹھی بھر کارپوریٹ ٹیکس دہندگان کو نچوڑنے کی بجائے ٹیکس وصولی یا زیادہ وسیع حلقہ تخلیق کیا جا سکے۔ معاشی بحالی اور مہنگائی کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اِس کیلئے کاروباری طبقے پر عائد محصولات میں اضافے کی بجائے کمی ہونی چاہئے تاکہ مزید سرمایہ کاری کو راغب اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے ذریعے معاشی بحالی کی جائے۔ یہی قرضوں کی واپسی اور مزید قرض لینے سے کنارہ کشی پر مبنی معاشی بحالی کی پائیدار حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔