امریکہ کے جدید ترین طیارے نے گزشتہ روز اس چینی غبارے کو اس وقت مار گرایا تھا جب وہ اس کی سمندری حدود کے اوپرمحوِ پرواز تھا۔یہ غبارہ چند دن امریکی فضاؤ ں میں محو پرواز رہا اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکیوں کیلئے خوف کی علامت بھی بنا رہا۔ اب ملبہ ملنے کے بعد تفتیش کار جاننے کی کوشش کریں گے کہ چینی غبارہ گزشتہ ہفتے امریکہ کی فضائی حدود میں کیوں اور کیسے داخل ہوا تھا۔چین نے اسے بے ضرر سائنسی تحقیق کا غبار ہ قرار دیتے ہوئے اسے گرانے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم امریکی اسے معمولی غبارہ سمجھنے کا خطرہ مول نہیں لے رہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ امریکی تفتیش کار اس غبارے سے کیا برآمد کرتے ہیں اور اسے بہانا بنا کر اپنا کونسا مقصد حاصل کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی دفاعی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہم قطعی طور پر نہیں جانتے کہ اس سے ہمیں کونسی مفید معلومات ملیں گی۔ لیکن ہم نے اس غبارے اور اس کی نگرانی کی صلاحیت کے بارے میں تکنیکی باتیں معلوم کر لی ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ جتنازیادہ ملبہ ہم نکال پائیں گے اتنا زیادہ ہمیں سیکھنے کو ملے گا۔اس ماہر کی بات سے تو یہ اشارہ ملتا ہے چین نے غبارہ امریکی فضاؤں میں بھیجنے سے جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ کر لیا۔ کیونکہ امریکی مرعوب نظر آرہے ہیں اور چینی غبارے کی اب تک سامنے آنے والی صلاحیتوں سے متاثر بھی۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ غبارے میں نصب آلات اس کے مقصد اور صلاحیتوں کے بارے میں جاننے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر میں ایرو سپیس انجینئرنگ سائنسز کے پروفیسر آئن بوئڈ کا کہنا ہے کہ نہ تو بیجنگ اور نہ ہی واشنگٹن کی سرکاری وضاحتوں سے کوئی معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب شکوک و شبہات موجود ہیں اور یہ ہی کسی حد تک دلچسپ بات ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سچ کہیں درمیان میں ہے۔بوئڈ کا کہنا تھا کہ اگر رسکیو ٹیمیں کافی مقدار میں آلات برآمد کر لیتی ہیں تو وہ ممکنہ طور پر یہ جان سکیں گے کہ اس میں کتنی معلومات موجود ہیں، کس قسم کی معلومات پر کا تجزیہ کیا جا رہا تھا اور کیا کوئی پروسیس شدہ ڈیٹا چین بھیجا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ غبارے کو قریب سے دیکھنے اور یہ معلوم کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ آیا اس میں پروپیلر یا مواصلاتی آلات جیسی خصوصیات موجود ہیں یا نہیں، جس سے اس بات کا تعین کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ آیا اسے دور سے کنٹرول کیا جا رہا تھا یا نہیں۔یہاں تک کہ اگر سافٹ ویئر کو نقصان پہنچا ہے یا کسی طرح مٹا دیا گیا ہے تو تفتیش کار اس کی طرف سے لی گئی نگرانی کی تصاویر کی ریزولوشن اور معیار جیسی چیزوں کا جائزہ لے سکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ نہایت حیران کن بات ہو گی کہ اگر اس پلیٹ فارم پر کوئی ایسی ٹیکنالوجی پائی گئی جس کے مقابلے میں امریکہ کے پاس پہلے سے کوئی مساوی ٹیکنالوجی نہ ہو۔ڈاکٹر فالکو کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرح چین بھی ایک نہایت چالاک مخالف ہے اور ہو سکتا ہے کہ جاسوسی کے مشن کے ایک حصے کے طور پر ایئرکرافٹ کو خود تباہ کرنے یا ڈیٹا کو ضائع کرنے کی منصوبہ بندی پہلے سے کر رکھی ہو۔ڈاکٹر فالکو نے کہا کہ امریکہ یہ جان سکتا ہے کہ غبارے کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا کس طرح واپس چین بھیجا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ چین نے ہائبرڈ سیٹلائٹ نیٹ ورک استعمال کیا ہو، جو قریب ترین مدار میں دوست سیٹلائٹ تک ڈیٹا پہنچانے کے لئے اونچائی والے پلیٹ فارم استعمال کرتا ہے۔ ڈاکٹر فالکو نے کہا کہ ایک بار جب سیٹلائٹ محفوظ علاقے میں پہنچ جاتا ہے تو یہ زمینی سٹیشن یا ایک اینٹینا سے منسلک ہوتا ہے جو کنٹرول سسٹم کے طور پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ غبارہ کسی ایسے سیٹلائٹ سے جڑنے کے قابل ہے جو زمینی سٹیشن سے منسلک ہو، تو چین کو اپنے ڈیٹا تک رسائی حاصل رہے گی اور وہ تمام معلومات کو مٹا سکے گا۔