کیا پاکستان میں بھی ترکیہ اور شام کی طرح ’بڑا زلزلہ‘ آنے والا ہے؟ اِس حوالے سے سوشل میڈیا بالخصوص ’واٹس ایپ گروپوں‘ میں غیرسائنسی معلومات کا تبادلہ جاری ہے جن کا ماخذ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کا تبصرہ ہے جس کے آخر میں اگرچہ اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ ”زلزلہ اپنی فطرت میں پُراسرار اور انسانی عقل کے لئے معمہ (چیلنج) ہے کیونکہ یہ کبھی بھی اپنی آمد (وقوع پذیری) کے نقش (فٹ پرنٹ) نہیں چھوڑتا لہٰذا اِس کے بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔“ اِس حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے متعلقہ ادارے نے ایک وضاحت بھی جاری کی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کا ’زلزلہ پیما مرکز‘ پشاور میں واقع ہے۔ ’نیشنل سیسمک مانیٹرنگ سینٹر (این ایس ایم سی)‘ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ”زلزلہ آنے سے متعلق غیر ضروری پیشگوئیاں سائنسی طور پر بے بنیاد ہیں اور اِس مفروضے میں کوئی صداقت نہیں کہ ترکیہ و شام کے بعد پاکستان‘ بھارت اور افغانستان میں زیادہ شدت کے زلزلے آئیں گے جن سے پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے۔“ زلزلہ جسے ’قدرتی آفت‘ قرار دیا جاتا ہے درحقیقت زمین کی ساخت اور اِس میں وقوع پذیر ہونے والی شروع دن سے تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ زلزلے سے متعلق علم و تحقیق رکھنے والے تاحال اِس کا تعلق فضائی آلودگی‘ موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں جوڑپاتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ مصدقہ تحقیق کی بنیاد پر فی الوقت یہ جاننا ممکن نہیں کہ اگلا زلزلہ کب اور کہاں آنے والا ہے اور اگر مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی اور ہزاروں سال کے علوم و تحقیق سے استفادہ کرنے والے ماہرین کو معلوم ہوتا کہ زلزلہ کب آئے گا تو ترکیہ میں اِس قدر جانی و مالی نقصانات نہ ہوتے۔ ذہن نشین رہے کہ ہر 30 سیکنڈ بعد‘ دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں زلزلہ آتا ہے اور اگر زلزلہ آنے کی سالانہ اوسط دیکھی جائے تو کسی بھی ایک سال میں کم سے کم ”5 لاکھ“ چھوٹے بڑے زلزلے ریکارڈ (ظاہر) ہوتے ہیں۔ اِن میں چھوٹے زلزلے اُن جھٹکوں کو کہا جاتا ہے جنہیں انسان محسوس نہیں کرتے لیکن زیرزمین تبدیلیوں کی وجہ سے ظہورپذیر ہو رہے ہیں۔ سالانہ پانچ لاکھ زلزلوں میں سے صرف ایک لاکھ زلزلے انسانوں کو محسوس ہوتے ہیں اور اِن ایک لاکھ میں سے صرف 100 ایسے ہوتے ہیں جن کی شدت اِتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اُن کی وجہ سے جانی یا مالی نقصانات ہوں۔کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان میں ہر دن ہلکے جھٹکے آتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ قدرت کا زیرزمین نظام متحرک ہے اور زمین تہوں کی صورت میں بچھی ہوئی ہیں جن میں کچھ تہیں مسلسل حرکت کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کا دو تہائی رقبہ زلزلوں کا باعث بننے والی ’زیر زمین‘ متحرک تہوں (fault-lines) پر واقع ہے۔ کراچی سے اسلام آباد اور کوئٹہ سے پشاور‘ مکران سے ہزارہ ڈویژن (بالائی خیبرپختونخوا)‘ کشمیر اور گلگت بلتستان زلزلوں کے لحاظ سے حساس علاقوں (سنسیٹیو ارتھ کوئیک زونز) میں آتے ہیں۔ جہاں تک ترکیہ و شام کے بعد پاکستان میں زلزلہ آنے کے امکان کی بات ہے تو زلزلہ پیما مرکز کے مطابق ”ترکیہ اور پاکستان کی فالٹ لائنوں میں مماثلت نہیں ہے اور اگر ہوتی تو پاکستان میں بھی جھٹکے محسوس کئے جاتے۔“ چونکہ ’سوشل میڈیا‘ نے ہر شعبے کے ماہرین پیدا کئے ہیں اِس لئے زلزلے کے حوالے سے بھی پیشگوئیاں کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن یہ سبھی باتیں مفروضوں یا امکانات کی بنیاد پر بحث کرتی ہیں اور اِن کی ”سائنسی (علمی) بنیاد“ نہیں ہے اور ایسی تمام پیشگوئیاں سختی سے مسترد کر گئی ہیں کہ ترکیہ و شام کے بعد‘ اگلے چند دنوں میں پاکستان میں بھی بڑا زلزلہ آنے والا ہے! ذہن نشین رہے کہ چھ فروری (دوہزارتیئس) کی صبح ترکی اور شام میں 7.7 شدت کا زلزلہ آیا جس کے کچھ گھنٹوں بعد اسی شدت کا دوسرا زلزلہ آیا اور نتیجے میں ہزاروں عمارتیں منہدم ہو گئیں‘ جو مکینوں سے بھری ہوئی تھیں۔9 فروری کی سہ پہر تک‘ ترکیہ میں بارہ ہزار جبکہ شام دوہزار یعنی مجموعی ہلاکتیں ”پندرہ ہزار“ سے تجاوز کر چکی ہیں جبکہ منہدم ہونے والی عمارتوں کا ملبہ ابھی مکمل طور پر صاف نہیں ہوا‘ اندیشہ ہے کہ ملبے سے مزید لاشیں برآمد ہو سکتی ہیں جبکہ ترکیہ و شام میں شدید سردی کے عالم میں ہزاروں افراد زخمی یا بے گھر ہیں!ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلوں سے پاکستان میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے‘ جو اپنی جگہ منطقی (فطری) ردعمل ہے محکمہئ موسمیات (پی ایم ڈی) کے زیرانتظام پاکستان میں زلزلہ پیمائی کے ’تیس‘ ریموٹ مانیٹرنگ سٹیشنوں پر مشتمل ’سیسمک مانیٹرنگ نیٹ ورک‘ ہے جہاں ہر روز پاکستان اور اِس کے آس پاس علاقوں میں آنے والے زلزلوں کی پیمائش (ریکارڈنگ) کی جاتی ہے۔ یہ زلزلے چھوٹے سے درمیانی شدت کے ہوتے ہیں جن کا وقوع پذیر ہونا خالصتا ًقدرتی عمل ہے۔ پاکستان میں زلزلوں کا مؤجب بننے والی زیرزمین تہوں کیجڑیں ایران‘ افغانستان اور تاجکستان میں ہیں جہاں ماضی میں کئی بڑے زلزلے آ چکے ہیں۔ سیسمک مانیٹرنگ نیٹ ورک کے مطابق اِن ممالک (ایران‘ افغانستان اور تاجکستان) میں ہر روز 100سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ جہاں تک ترکیہ زلزلے کا تعلق ہے تو اِسے پاکستان سے جوڑنا سائنسی طور پر درست نہیں لیکن پاکستان کے آس پاس ”بڑا زلزلہ“ آنے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے لیکن یہ کب آئے گا اور کہاں آئے گا یہ جاننا موجودہ ٹیکنالوجی اور علوم کی پہنچ سے باہر ہے۔ زلزلے کے بارے میں پیشگوئی کا مروجہ طریقہ یہ ہے کہ گزشتہ زلزلوں کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے خطرات کا پتہ لگایا جائے اور قیاس آرائی کی جائے۔ زلزلے کے خطرے کا تخمینہ ارضیاتی علوم کے ماہرین عموماً کرتے رہتے ہیں جو قابل اعتماد نہیں ہوتا لیکن عوام الناس اِنہیں دلچسپی سے پڑھتے ہیں اِس لئے ایسی افواہیں بہت جلد پھیل جاتی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے ٹوئٹر و فیس بک اور واٹس ایپ صارفین نے ہالینڈ (نیدرلینڈ) کے زلزلہ پیما مرکز سے وابستہ محقق ’فرینک ہوگربیٹس (Frank Hoogerbeets)‘ کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ (@hogrbe) سے جاری بیان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جس میں اُنہوں نے ترکیہ زلزلہ کی تین دن قبل (تین فروری کے روز) پیشگوئی کر دی تھی اور اپنی اِس پیشگوئی کے ساتھ کرہئ ارض کی ایک تصویر اور زلزلے کا خاکہ بھی جاری کیا جس میں ترکی کے بعد بھارت اور پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک میں ممکنہ زلزلے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں ایران‘ اٹلی‘ انڈونیشیا اور ملائیشیا کو میں بھی اسی نوعیت کے بڑے زلزلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اُن کی پیشگوئی کی بنیاد 115 اور 526 سال قبل آئے زلزلے (ماضی کے واقعات) ہیں۔ ترکیہ و شام میں زلزلے کے بعد جاری اپنے ٹوئیٹر پیغام میں اُنہوں نے زیرزمین تبدیلیوں کا رخ فلسطین کی طرح مڑنے کی بات کہی ہے‘ جو ایک ہی ’فالٹ لائن‘ پر واقع ہیں اور بقول ’فرینک ہوگربیٹس‘ مذکورہ خطہ زیرزمین تبدیلیوں کی زد میں ہے۔