موسمیاتی تبدیلی کا عمل جس تیزی اور شدت سے وقوع پذیر ہورہا ہے اس سے یہ خدشات جڑ پکڑنے لگے ہیں کہ جلد ہی اگر اس مسئلے کے حل کیلئے کچھ نہیں کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔سائنس دانوں نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹارکٹک اوقیانوس کا علاقہ جہاں ہزاروں برسوں سے برف کی موٹی تہیں موجود ہیں، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے وہاں کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور جنوری کے مہینے میں وہاں موجود برف کی تہہ، جب سے اس کا ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، وہ اپنی کم ترین سطح پر تھی۔یورپی یونین کے آب و ہوا کی تبدیلی پر نظر رکھنے والے کوپرنیکس کلائمیٹ مانیٹرکے مطابق، جنوری کا مہینہ بھی ریکارڈ کے لحاظ سے یورپ میں تیسرا گرم ترین جنوری تھا۔ براعظم کے کچھ حصوں میں نئے سال کے دن درجہ حرارت اپنی نئی بلند ترین سطح پر دیکھا گیا۔تاہم منجمد سمندر پگھلنے سے سمندر کی سطح پر کوئی واضح اثر نہیں پڑتا کیونکہ برف پہلے ہی سمندر کے پانی میں موجود ہوتی ہے اور برف کا حجم بھی اپنی مقدار کے مساوی پانی سے زیادہ ہوتا ہے۔لیکن دوسری جانب یہ پہلو تشویش میں اضافہ کرتا ہے کہ برف پگھلنے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے میں تیزی آ جاتی ہے کیونکہ برف کی سفید تہہ سورج سے آنے والی حرارت کی لہروں کو واپس خلا میں پلٹ دیتی ہے جب کہ پانی اسے اپنے اندر جذب کر لیتا ہے جس سے سمندر کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پانی میں یہ خاصیت ہے کہ سورج کی 80 فی صد حرارت اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ جب کہ برف سورج کی 90 فی صد حرارت خلا میں واپس بھیج دیتی ہے۔کرہ ارض پر موسم کی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک قدرتی چکر بھی کام کرتا رہتا ہے۔ اس کے تحت زمین کے کچھ حصوں میں موسم تقریبا پانچ سال تک گرم اور خشک رہتا ہے اور دوسرے حصوں میں ٹھنڈا اور وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہے۔ پانچ سال کے بعد یہ چکر مکمل ہونے کے بعد گرم علاقے معتدل ہونے لگتے ہیں اور معتدل علاقوں کا موسم خشک اور گرم پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس قدرتی چکر کو سائنس کی زبان میں لانینا کہتے ہیں۔اس قطبی علاقے میں بڑی تعداد میں پینگوئن پائے جاتے ہیں۔ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے برف پگھلنے سے وہ علاقے گھٹ رہے ہیں جہاں قیام کرتے ہیں اور اپنی نسل بڑھاتے ہیں۔موسمیات کے سائنس دان کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر لانینا کے موسمی چکر میں جو علاقے ٹھنڈ کے زیر اثر تھے وہاں بھی پچھلا سال پانچواں یا چھٹا ریکارڈ گرم ترین سال تھا۔پچھلے سال یورپ میں گرمیوں کا موسم ریکارڈ گرم ترین تھا جس کی وجہ سے براعظم کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا اور بڑے پیمانے پر جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی جس سے بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا اور آلودگی بھی بڑھی۔یورپی یونین کے موسمیات سے متعلق ادارے نے بتایا ہے کہ یورپ کے اکثر حصوں میں جنوری کا مہینہ اپنے اوسط سے زیادہ گرم تھا۔ اسی طرح مشرقی امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو میں بھی درجہ حرارت بھی معمول سے بلند دیکھا گیا۔ جب کہ سائبیریا، افغانستان، پاکستان اور آسٹریلیا میں درجہ حرارت اوسط سے کم رہا۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسم کی بدلتی ہوئی صورت حال خطرے کی ایک گھنٹی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کا عمل روکنے کے لئے سب حکومتوں کو سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے اور عالمی درجہ حرارت پر کنٹرول کے لئے فوری اقدامات کرنے چاہیں۔انٹارکٹک کی برف سے متعلق جاری ہونے والی اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری میں برف کی مقدار اپنے اوسط سے 31 فی صد تک کم تھی اور اس کے ساتھ ساتھ جنوری میں برف باری ماضی کے تمام معلوم ریکارڈز سے کم رہی۔یہ معاملہ محض یورپ تک محدود نہیں بلکہ وطن عزیز بھی شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے جس کی حالیہ مثال بد ترین سیلاب تھے جن کے اثرات کئی مہینے گزرنے کے بعد تاحال موجود ہیں اور زراعت کے شعبے کو اس نے بری طرح متاثر کیا ہے۔