ہماری سیاسی قیاد ت نے تہیہ کیاہواہے کہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھنا وگرنہ جس طرح 1977ء میں مارشل لاء کو خوش آمدید کہاگیا اورجس کے نتیجہ میں پھر ملک پر گیارہ برس تک آمریت کے تاریک سائے مسلط رہے،اسی طرح بارہ اکتوبر 1999ء کے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کاخیر مقدم نہ کیاجاتا بارہ اکتوبر کے بعد کے بعض بیانات محض یاددہانی کے لئے دہرائے جارہے ہیں تیرہ اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کابیان آیاکہ نوازشریف کایہی انجام ہوناتھا وہ ان دنوں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران لندن میں مقیم تھیں اسی روز نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کاکہناتھاکہ فوجی ایکشن کے ذمہ دار نوازشریف خود ہیں طاہر القادری نے کہاکہ عسکری قیاد ت سیاستدانوں سے زیادہ جمہوریت پسند ہے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی پیچھے نہ رہے ان کاکہناتھاکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کامقصد پورا ہوگیا،مولانا فضل الرحمن کا اسی روز بیان آیاکہ فوجی ایکشن کی مکمل ذمہ دار ی نوازشریف پر عائد ہوتی ہے گویا ان کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کو مکمل کلین چٹ دے دی گئی تھی اے این پی کی رہنما بیگم نسیم ولی خان کاکہناتھاکہ نواز حکومت کاخاتمہ خوش آئند ہے،جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کی طرف سے اظہار تشکرکرتے ہوئے کہاگیاکہ نواز حکومت نے ملک کے تمام اہم دستوری اداروں کو تباہ کرنے کے بعدفوج کو بانٹنے کاعمل شروع کردیاتھا اگلے روز یعنی چودہ اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان کاکہناتھاکہ جنرل پرویز مشرف کو اللہ پر بھروسہ کرناچاہئے انہیں آئی ایم ایف،امریکا یا کسی بھی سیاسی جماعت کے دباؤ میں نہیں آناچاہئے اسی روز جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما سید منور حسن نے کہاکہ نوازشریف کے پاس اربوں ڈالر ہیں ان کے حلق سے نکال کر پاکستان کے قرضے ادا کریں سترہ اکتوبر کو بے نظیر بھٹو نے بیان دیاکہ ملک مشکلات سے دوچار ہے فوج مشورہ لیناچاہے تو بھرپورمعاونت کروں گی اٹھارہ اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کاایک اور بیان سامنے آیا جس میں ان کاکہناتھاکہ ملک کی نئی (یعنی فوجی)قیاد ت کے ساتھ پوری طرح کام کرنے کے لئے تیار ہوں بیس اکتوبر کو اصغر خان مرحوم کابیان اخبارات کی زینت بناکہ جنرل مشرف کافیصلہ ملک وقوم کے مفاد میں ہے بیس اکتوبر کو ملک کی 19اہم جماعتوں پر مشتمل اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کااعلان کیاگیا یہ تمام بیانات ان دنوں کے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں اوراب بھی ریکارڈ میں موجودہیں مرکزی قائدین کے ساتھ ساتھ صوبائی قائدین بھی مارشل لاء کے خیر مقدم اور جمہوری حکومت کے خاتمہ کی خوشی میں پیش پیش تھے تیرہ اکتوبر کو اے این پی کے مرحوم رہنما افضل خان لالا نے کہاکہ فوج نے بروقت اقدام کرکے ملک اوروفاق کو بچالیا اے این پی کے مرکزی رہنما فرید طوفان کاکہناتھاکہ آرمی چیف کااقدام نیک نیتی پر مبنی ہے پی پی پی کے رہنما خواجہ محمد خان ہوتی کابیان چھپا کہ جنرل مشرف کااقدام ملکی وقومی مفادات کے عین مطابق ہے پی ٹی آئی کے رہنما نوابزادہ محسن علی کاکہناتھاکہ آرمی چیف کااقدام سراہے جانے کے لائق ہے پی پی پی کے رہنما جو بعد میں گورنر بھی رہے بیرسٹر مسعودکوثر نے کہاکہ عسکر ی قیادت نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے بچالیاجماعت اسلامی کے موجودہ صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم کاکہناتھاکہ فوج نے کرپٹ نااہل اور غدار حکومت سے نجات دلا کر مستحسن اقدام کیا پی پی پی کے موجودہ معطل صوبائی صدر نجم الدین خان نے کہاکہ نواز شریف کو عوام کی بددعائیں لے ڈوبیں اے این پی کے رہنما اعظم ہوتی کابیان سامنے آیا کہ فوج نے ملک کو تباہی سے بچالیا یہ محض ایک ہفتہ کے بیانات ہیں یوں سوائے مسلم لیگ ن کے کہ جو متاثرہ فریق تھی باقی تمام جماعتوں نے مارشل کو چشم ماروشن،دل ماشاد کہااس وقت تمام سیاسی قوتوں نے حالات کے تھپیڑے کھانے کیلئے ن لیگ کو تنہا چھوڑ دیا تھا اس سے قبل جب پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت ختم کرتے ہوئے مارشل لاء لگایا تو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس)نے اس کاخیر مقدم کرتے ہوئے ساتھ ایک اور نعرہ بھی بلند کردیاتھا‘جنرل ضیاء کاکہناتھاکہ نوے روز میں انتخابات کرادیئے جائیں گے مگر پی این اے کی بعض جماعتوں کی طرف سے مطالبہ سامنے آیاکہ پہلے احتساب پھرانتخاب،گویا سیاسی قوتوں نے خودہی غیر سیاسی رویہ اختیار کرتے ہوئے غیرجمہوری قوتوں کو موقع فراہم کیاکہ وہ انتخابات کے وعدے کو پس پشت ڈال دے او را س کے بعد جو کچھ ہوا وہ اب ہماری سیاسی تاریخ کا ناخوشگوار اور سیاہ باب بن چکاہے اس وقت بھی یہ نعرہ پھر بلند ہورہاہے کہ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کااحتساب کیاجائے یہ بجا کہ سابق دور میں سب کچھ ٹھیک نہ تھا بہت سے معاملات کی شفافیت مشکوک تھی بعض وزراء کی طرف انگلیاں اٹھ رہی تھیں مگر جو کمزور تھے وہ تو آؤٹ ہوتے چلے گئے جو رابطوں کے ماہر تھے وہ آخرتک اپنے اپنے مناصب پر فائزرہے اب اگر انہوں نے کوئی غیر قانونی کام کیاہے تو پوچھ گچھ ضروری ہے مگر اس کیلئے الگ سے ادارے موجود ہیں محض سابق صوبائی وزراء کے خلاف کاروائی کے مطالبہ پر انتخابی عمل کو التواء میں نہیں ڈالا جاسکتا ویسے بھی انتخابات میں ووٹر اچھی طرح احتساب کرسکتاہے تاہم جن لوگوں کے پا س سابق وزراء یا پھر ان کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری اہلکاروں کے خلاف ثبوت موجودہیں تو پھر نیب بھی ہے،اینٹی کرپشن کامحکمہ بھی موجود ہے بعض معاملات میں ایف آئی اے بھی کردار ادا کرسکتاہے لہٰذا انتخاب نہیں احتساب کے پرانے نعرے کو زندہ کرکے اپنے لئے کنواں نہ کھودا جائے جمہوری پارلیمانی نظام میں انتخابی تسلسل ہی ا حتساب کاسب سے مؤثر اور کامیاب عمل ہوتاہے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیئے جائیں تو کوئی بھی احتساب کے شکنجہ سے بچ نہیں سکتا ا س لئے انتخابی عمل کے ذریعہ احتساب کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے بصورت دیگر پھر سب کو اگلے کئی سال تک میدان سے باہر انتظار کرناپڑسکتاہے۔