بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے کامیاب مذاکرات اور قرض کی اگلی قسط یقینی طور پر ملنے کے بعد پاکستان فوری دیوالیہ ہونے کے خطرے سے فی الوقت محفوظ ہو گیا ہے تاہم سخت گیر مالیاتی نظم و ضبط‘کفایت شعاری اور قومی وسائل کی ترقی قومی ترجیحات کا حصہ ہونی چاہیئں ’آئی ایم ایف‘ کو قائل کرنے کے بعد پاکستان کی سب سے مالیاتی ذمہ داری اگلے بائیس مہینوں (دو سال) میں قریب بارہ ارب ڈالر مالیت کے غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے جس کے لئے غیر ملکی قرضوں کی تنظیم نو کے لئے قرض دہندگان کے ساتھ بات چیت کی جائے گی کیونکہ پاکستان کے ذمے واجب الادأ قرضے (مالیاتی ذمہ داریاں) قومی آمدنی سے کہیں بڑھ کر (زیادہ) ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو ایک سال میں مجموعی طور پر 21.95 ارب ڈالر قرض چکانا ہے جس میں 2.60 ارب ڈالر سود کی ادائیگی بھی شامل ہے تاہم مرکزی بینک نے آئندہ بارہ ماہ تک اِس بات کا اندازہ نہیں لگایا کہ آئندہ بارہ ماہ (ایک سال) کے دوران مزید کتنا غیر ملکی قرض درکار ہوگا۔ مرکزی بینک کے مطابق پاکستان ہر ماہ قریب چار (3.95) ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اِس طرح اگلے تین ماہ میں 4.63 ارب ڈالر جبکہ ’آئی ایم ایف‘ کی جائزہ مدت کے آخری 8 ماہ کے دوران مزید 13.37 ارب ڈالر واپس کرنا ہیں‘غیرمعمولی مالی بحران سے نکلنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ ایک یقینی مستقبل (بنا قرض آمدن کے پائیدار ذرائع کی تلاش) کیلئے سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور کم سے کم آئی ایم ایف سے حاصل کردہ موجودہ قرض ایسے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنا ہے جس سے قومی آمدنی میں اضافہ ہو یعنی اندرون و بیرون ملک حکومتی اخراجات پر قابو پانے اور اندرون و بیرون ملک قومی آمدنی کے وسائل بڑھانے کیلئے موجود امکانات (آپشنز) پر کام کرنا چاہئے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ماضی کی مالیاتی حکمت عملیوں پر ناکافی عمل درآمد جیسی غلطی دہرائی نہیں جانی چاہئے بلکہ پاکستان کو غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اِس مقصد کیلئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا پاکستان میں مالیاتی اصلاحات پر اعتماد بڑھانے اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے ترسیلات ِزر میں اضافے کی درخواست (اپیل) ہونی چاہئے جس کیلئے گھریلو معیشت کو اِس حد تک پرکشش بنایا جائے کہ اِس کی جانب اندرون و بیرون ملک سرمایہ کار راغب ہوں اِس سلسلے میں اگر ترسیلات ِزر کرنے والے مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ڈالر کی قیمت ادا کی جائے تو قانونی راستوں سے ترسیلات ِزر میں یقینی اضافہ ہوگا‘حال ہی میں ”نیا پاکستان سرٹیفکیٹ“ پر دی جانے والی شرح منافع پر نظر ثانی کی گئی ہے تاکہ غیر مقیم پاکستانیوں کو متوجہ کیا جا سکے پاکستان کے قرضوں کی تنظیم نو اور رواں برس (دوہزارتیئس) جون میں موجودہ قرض ختم ہونے کے بعد نئے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مزید قرض لینا چاہئے یا نہیں اِس بارے میں بھی غوروخوض ضروری ہے‘درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ عملاً کیسے ہوگا‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد تلاش کرنا عبث ہوگا۔ قومی قرضوں کا حجم کتنا بڑا ہے اِس حقیقت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو اگلے ساڑھے تین برس کے دوران (فروری دوہزارتیئس سے جون دوہزارچھبیس تک) قریب ’80 ارب ڈالر‘ کا غیر ملکی قرض واپس کرنا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کی موجودہ حالت یہ ہے کہ یہ 3 ارب ڈالر سے بھی کم ہو چکے ہیں اور اِس صورتحال میں آسان کی بجائے مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے جیسا کہ غیر ملکی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی بجائے ری پروفائلنگ کی جائے۔ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کا تجربہ گزشتہ کئی برس سے کیا جا رہا ہے قرضوں کی دوبارہ پروفائلنگ سے قلیل مدت میں قرض واپس نہیں کرنا پڑیں گے اور مالیاتی غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے‘ جب سانس لینے کا موقع مل جائے تو اِس دوران معاشی اصلاحات کی جا سکیں گی‘ مجموعی طور پر 13 ارب ڈالر کے قرضوں کو دوبارہ پروفائل کیا جا سکتا ہے۔ جو قومی انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کو اِس لئے کرنا چاہئے تاکہ وہ قومی مالی خسارہ پر بھی قابو پائے جو قومی آمدنی کے قریب سات (6.8) فیصد اور بجٹ کا پانچ (4.9) فیصد رہنے کا امکان ہے۔