تعلیمی اِداروں میں تحریر و تحقیق سے جڑی تخلیقات اگر ’نقل‘ پر مبنی ہوں تب بھی قابل قبول ہو سکتی ہیں لیکن جب طلبہ نقل کرتے ہوئے عقل کا استعمال نہیں کرتے تو درحقیقت یہ اِس بات کا بیان ہوتا ہے کہ درس و تدریس کا عمل اپنی معنویت اور مقصدیت سے دور کسی الگ ہی سمت میں سفر کر رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بعد مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) کا استعمال کرتے ہوئے ’نقل (plagiarism)‘ پر مبنی مواد کی تخلیق ایک ایسا چیلنج ہے جس سے کلاس روم یا سکول کی سطح پر تو نمٹا جا سکتا ہے لیکن تحقیقی مقالہ جات میں ایسی نقل کی پہچان مشکل ہوتی ہے۔ اساتذہ عموماً ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن طلبہ کو تحقیق کرنا پڑے اور وہ منفرد و مناسب (موزوں) الفاظ کے چناؤ اور لکھنے کی منفرد صلاحیت کا مظاہرہ کریں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ ماضی میں انٹرنیٹ کے ذریعے مواد کو ”کٹ اینڈ پیسٹ (cut and paste)“ کر کے مضامین تیار کر لئے جاتے تھے جسے اب چوری تصور نہیں کیا جاتا بلکہ ”چیٹ جی پی ٹی“ جیسی جدید سہولت‘ جو کہ مصنوعی ذہانت کا آلہ ہے کا استعمال بڑھ گیا ہے اور اِس کے ذریعے کوئی بھی شخص کسی بھی بڑے شاعر ادیب یا محقق کے لکھنے
کے انداز کی اِس قدر ہو بہو (مشابہ) نقل کر سکتا ہے کہ اُس کی شناخت ممکن نہیں رہتی اور اِس ناقابل شناخت اصل مواد پیدا کرنے کی قابلیت درحقیقت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو متاثر کر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت نے شعبہئ تعلیم کے مختلف شعبوں کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے سیکھنے کے عمل کا طریقہ بدل گیا ہے اور اب طلبہ ہوم ورک (اسائنمنٹس) مصنوعی ذہانت کے استعمال سے مکمل کر دیتے ہیں۔ یہ صورتحال اساتذہ کے لئے پریشان کن ہے کیونکہ انہیں ایک ایسی دنیا میں طالب علموں کے علم اور صلاحیتوں کی جانچ کرنا ہے جس میں ٹیکنالوجی کا استعمال دھوکہ دہی کے لئے کیا جا رہا ہے اور یہ چیلنج مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں اور کیا اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں ایک شفاف اور منصفانہ تعلیمی نظام کے حصول کی کوششیں ہو رہی ہیں؟ مصنوعی ذہانت کی مدد سے دھوکہ دہی آسان لیکن اِس کی شناخت مشکل ہے جس کی وجہ سے تعلیمی عمل پر غیریقینی حاوی دکھائی دیتی ہے۔تعلیم کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے نقل و اصل کا فرق جاننے کے لئے طلبہ سے منہ زبانی سوال و جواب کی نشست کی جاتی ہے یہ بالکل ویسا ہی عمل ہے جیسا کہ سائنس کے مضامین میں ’وائیوا (viva exam)‘ ہوتا ہے‘ جسے ’اورل ایگزیم (oral exam) بھی کہا جاتا ہے اور یہی آزمودہ طریقہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی طالب عمل کی اہلیت و قابلیت کا درست احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ اساتذہ کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو طلبہ کے مستقبل اور بڑے پیمانے پر تعلیمی نظام کو ازسرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ امتحانات کی بجائے صرف ’ویوا‘ کے ذریعے طلبہ کی درجہ بندی کرنے والے ممالک میں سرفہرست ’فن لینڈ‘ کا
نظام تعلیم پوری دنیا کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ اگر ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے طلبہ میں دیانت اور ذہانت کے ذریعے اُن کی شخصیت میں دیانت داری اور مضبوطی کا احساس پیدا نہیں کر رہے تو پوری تعلیمی مشق غیرضروری ہے۔ طلبہ اگر صرف تعلیمی سند (ڈگری حاصل کرنے) کے لئے تعلیمی تحقیق کرتے ہیں تو یہ کامیابی نہیں بلکہ وقت کا ضیاع اور تعلیمی کی روح یعنی صداقت و ساکھ پر وار ہے۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال اُس وقت کم سے کم ہوگا جب طلبہ زیادہ سے زیادہ وقت کلاس رومز میں اساتذہ کی زیرنگرانی گزاریں گے۔ تعلیمی بندوبست میں سکول کا کردار چند گھنٹوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ طلبہ کا زیادہ وقت آمدورفت یا ٹیوشن (کوچنگ سنٹرز) کی نذر ہو رہا ہے اور ایسی آن خدمات سے بھی استفادہ ہو رہا ہے جو طلبہ کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ’چیٹ بوٹس‘ کے استعمال اور اُن سے ”فائدہ“ اُٹھانے کی تدابیر سکھاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت میں غوطہ زنی کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کی ترغیب طلبہ کو ہم جماعتوں یا ہم عصروں سے بھی مل رہی ہے جس کی حوصلہ شکنی کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کرنا ہوگی۔