صحت عامہ: عملی ضروریات

پاکستان کے موجودہ ’ہیلتھ کیئر سسٹم (نظام صحت)‘ کے بارے میں ’جتنے منہ اُتنی باتیں۔‘ صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی میں غفلت اور ناکافی معیار سے متعلق حقائق اور شکایات کے انبار لگے دکھائی دیتے ہیں البتہ یہ الگ موضوع ہے کہ مہنگے ترین نجی ہسپتالوں سے علاج معالجہ کروانے والوں کی توقعات بھی پوری نہیں ہو رہیں جبکہ سرکاری شعبے میں علاج معالجے کی صورتحال کہیں زیادہ بدتر ہے جہاں ایک بستر پر متعدد مریض پڑے ملتے ہیں۔ ہسپتالوں کی راہداریوں میں علاج ہو رہا ہوتا ہے اور کسی سرکاری ہسپتال کی انتظامیہ (گھوم پھر کر) اگر کسی ایک بات کا بار بار اور فخر سے ذکر کرتی ہے تو وہ ہسپتال میں صفائی کی صورتحال میں بہتری ہوتی ہے جبکہ ضرورت اَدویات اور علاج کی سہولیات میں اضافے کی ہے۔پاکستان میں ہر سال پانچ لاکھ افراد ’تپ دق (ٹی بی)‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک کروڑ بیس لاکھ افراد کو یرقان ہوتا ہے اور یہاں ’پولیو کا مرض‘ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ اور اِس جیسی دیگر بیماریوں کی وجہ سے مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں پاکستان سب سے زیادہ بیمار (متاثرہ) ملک ہے۔ یہاں ڈھائی لاکھ سے زائد بچے اپنی زندگی کے پہلے ڈھائی سو دنوں میں مر رہے ہیں اور نومولود بچوں کے لئے پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ افغانستان‘ صومالیہ‘ جنوبی سوڈان‘ مالی اور چاڈ کے مقابلے پاکستان میں ہر سال زیادہ تعداد میں نومولود بچے بیماریوں یا لاغر پن کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں زچگی کے دوران (بچوں کی پیدائش کرتے ہوئے) ہر ایک ہزار میں سے تقریبا دو سو مائیں مر جاتی ہیں جو خطے میں زچگی اموات کے لحاظ میں بلند ترین شرح ہے۔ ہر سال پاکستان میں ملیریا کے اٹھائیس لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں! پاکستان میں انتہائی ڈرگ ریزسٹنٹ (ایکس ڈی آر) ٹائیفائیڈ کی وبا بھی پھیلی ہوئی ہے۔ سال 2022ء کے دوران 34 لاکھ افراد ملیریا کا شکار ہوئے۔ چھوٹے بچوں میں ’ایچ آئی وی‘ کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ دس میں سے چار بچے نشوونما سے محروم ہیں۔ صحت سے متعلق عالمی پیمانہ یہ ہے کہ کوئی ملک اپنے ہاں کمزور بچوں کی وجہ سے سالانہ شرح نمو (جی ڈی پی) کا چار فیصد حصہ گنوا دیتا ہے کیونکہ جب بچوں کی خاطرخواہ نشوونما نہیں ہو گی تو اس کی وجہ سے اُن کی معاشی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوگی۔ جس قوم کے اکثریت بچے بھوک کا شکار ہوں اُن سے ذہانت کے مظاہرے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ پاکستان کو متعدی بیماریوں کا سامنا ہے اور یہ بڑا مسئلہ ہے لیکن دائمی بیماریاں صحت عامہ کے اِس عمومی منظرنامے میں سب سے زیادہ خرابیوں کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی بیماریاں‘ دل کے امراض اور فالج پاکستان میں قبل از وقت اموات کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ غذائی قلت‘ آلودگی‘ ہائی سسٹولک بلڈ پریشر اور تمباکو کا استعمال اِن امراض کی وجوہات میں شامل ہیں۔ المیہ ہے کہ پاکستان صحت اور تعلیم پر اخراجات کرنے میں ’روانڈا‘ سے بھی پیچھے ہے جبکہ یہاں کرپشن کی شرح بھی پسماندہ ترین افریقی ممالک سے زیادہ ہے! حکومت کی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں‘ مراعات و پینشن اور باقی ماندہ خردبرد (بدعنوانی) کی نذر ہو جاتا ہے۔ ہر سال بڑھنے والے اِن اخراجات کے بعد مختص کی گئی کل رقم سے ’بیس فیصد‘ وسائل صحت عامہ (کلینیکل) خدمات پر اِستعمال ہوتے ہیں اور بیماریوں یا وباؤں کے حوالے سے اِحتیاطی دیکھ بھال پر صحت کے شعبے کے لئے کل بجٹ کا بیس فیصد سے بھی کم خرچ ہوتا ہے۔ معاشی مشکلات سے دوچار اُور آمدنی کے کم وسائل رکھنے والا ملک جس کی آبادی (غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق) تیئس کروڑ سے زیادہ ہے کے لئے کلینیکل خدمات کی فراہمی اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لئے شعور و آگہی پھیلانے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
صحت عامہ سے جڑے عمومی و خصوصی مسائل کا حل چٹکی بجاتے ممکن نہیں ہے لیکن کہاوت ہے کہ جہاں ارادہ (مضبوط) ہو‘ قوت ارادی موجود ہو‘ وہاں فیصلے دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ حالات کی تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ  خاص تناظر میں زیر بحث لایا جائے۔ ایک بیمار یا غیر صحت مند پاکستان جس میں آنے والی نسلیں بھی شامل ہیں  کس طرح مضبوط بنیادوں پر استوار ہوسکتا ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ کے چیلنجوں کو اس وقت تک حل کرنا ممکن نہیں ہے جب تک کہ ہم آبادی کے درست اعدادوشمار موجود نہ ہوں اور اِس مقصد کے لئے ’بیس فروری سے تین مارچ‘ ملک میں 7ویں مردم شماری ہو رہی ہے جو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل آلات کے استعمال سے کی جائے گی اور اِس میں پہلی مرتبہ ’خود شماری‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ شرح پیدائش 3.4 فیصد ہے جو اگرچہ آبادی کے حجم کو دیکھتے ہوئے کم ہے لیکن شرح نمو سے متعلق یہ سرکاری اعدادوشمار جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ استعمال اور صفائی ستھرائی (حفظان صحت) کے حوالے سے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف پینے کا صاف پانی اور مناسب صفائی ستھرائی کی فراہمی سے صحت عامہ کے نظام پر ’متعدی بیماریوں کا ستر فیصد سے زیادہ بوجھ‘ کم کیا جا سکتا ہے اور یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ طبی ماہرین کی جانب سے رہنمائی پر مبنی حقیقت ہے۔ چوتھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں پائی جانے والی غذائی قلت (غذائی عدم تحفظ) کا مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ پانچویں ضرورت ’صحت عامہ‘ کے نظام میں افرادی و تکنیکی وسائل کے دانشمندانہ استعمال کی ہے۔ قومی سطح پر بیماریوں سے نمٹنے اور وبائی امراض پر قابو پانے یا اُن کے پھیلنے سے قبل متاثرہ علاقوں کی نشاندہی پر مبنی نظام مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ چھٹی اہم بات یہ ہے کہ ہمیں خاص طور پر کم آمدنی رکھنے والے طبقات کو معیاری صحت کی سہولیات تک رسائی فراہم کرنی چاہئے۔ ساتویں اہم بات یہ ہے کہ صحت عامہ کی فراہمی ممکن بنانے والے تجربہ کار ڈاکٹروں کے تحفظات دور کئے جائیں۔ اُنہیں جانی و پیشہ ورانہ تحفظ فراہم کیا جائے اور ادارہ جاتی سطح پر اِن پیشہ ور افراد کو بااختیار بنایا جائے۔ سمجھنا ہوگا کہ صحت کا نظام بہتر بنانے کے لئے نئے ہسپتالوں کے قیام کی ضرورت نہیں بلکہ تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کی ضرورت ہے جو بڑے پیمانے پر صحت عامہ کی منصوبہ بندی سے لیکر اِس پر عمل درآمد کے مراحل و امور سے واقف ہوں اور جنہیں انسانوں کو لاحق امراض کی طرح صحت عامہ کے نظام کو لاحق مرض کی بھی تشخیص و علاج کرنے پر عبور حاصل ہو۔