ماحولیاتی آلودگی، خطرے کی گھنٹی

عالمی ادارہ صحت نے پشاور کی غبار آلود فضا کو انسانی صحت کے لئے انتہائی سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پشاور میں آلودگی کی شرح عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ شرح سے چار گنا زیادہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ سرسبز علاقوں کا بتدریج خاتمہ اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔رپورٹ کے مطابق پھولوں کا شہر کہلانے والے پشاور میں روزانہ دو ہزار سات سو ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے دو ہزار دو ٹن کچرا صحت کے ادارے اُٹھاکر محفوظ علاقے میں پھینک دیتے ہیں جبکہ روزانہ کی بنیاد پر 500ٹن کوڑا کرکٹ شہر کی سڑکوں، گلیوں، نالیوں اور نہروں میں پڑا رہتا ہے اور ہوا کے ساتھ اڑ کر پورے شہر کی فضا کو آلودہ کرتا ہے۔دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں، اینٹوں کی بھٹیوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں بھی فضائی آلودگی میں روزبروز اضافہ کر رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق پشاور کی فضاؤں میں زہریلی گیسوں کی موجودگی کی شرح 2.5فیصد ہے جو عالمی ادارے کی مقررہ شرح سے تین گنا زیادہ ہے۔حکومت نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لئے ٹو سٹروک والے رکشوں پر پابندی لگادی تھی۔اس کے باوجود شہر میں لاکھوں کی تعداد میں بوسیدہ رکشے دھوئیں کے مرغولے اُڑاتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری لاپراہی کا عالم یہ ہے کہ لوگ اپنے گھروں کے کچرے بھی پلاسٹک شاپنگ بیگ میں ڈال کر دروازے یا کھڑکی سے باہر گلی میں پھینک دیتے ہیں۔شہر کے چند پوش علاقوں کے سوا کسی جگہ کوڑا دان نظر نہیں آتا۔ اور جہاں کوڑا دان رکھا بھی ہو۔تو کوڑا کرکٹ اٹھانے کی کسی کو فکر نہیں ہوتی اور وہی گندگی سڑکوں اور گلیوں میں بکھری نظر آتی ہے۔ شہر کے وسط سے بڑی نہری گذرتی ہیں ان نہروں کے آس پاس رہنے والے لوگ اپنا تمام کچرا اور پھٹے پرانے بستر اور کپڑے بھی نہر میں ڈال دیتے ہیں۔ نہروں کے آس پاس شادی ہال والے بھی اپنے ہاں کا سارا کوڑا کرکٹ بوریوں میں ڈال کر انہی نہروں میں انڈیل دیتے ہیں۔ گردوغبار کی آلودگی کے علاوہ پریشر ہارن سے جو صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ سے بھی لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں پشاور میں گلے اور سینے میں درد، سر درد، چکر آنے، ہیضہ، بخار، نزلہ، زکام اور الرجی کی بیماریوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ بیماریاں بھی فضائی آلودگی اور آلودہ پانی استعمال کرنے کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ شہر کے پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں کا فاضل مواد بھی ٹھکانے لگانے کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں۔جو آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔  اس وقت  نکاسی آب، صاف پانی کی فراہمی، صحت و صفائی، تعلیم، روزگار اور ٹریفک کا اژدھام سمیت مختلف مسائل سر اٹھا رہیہیں۔ شہر کے نواحی علاقے سکڑتے جارہے ہیں اور سبزہ اور درخت ختم ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند کے لئے بھی زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔شہر کو ماحولیاتی آلودگی اور شہریوں کو صحت مندانہ ماحول فراہم کرنے کے لئے سخت قسم کے قوانین وضع اور ان پر عمل درآمد ہر قیمت پر یقینی بنانا ہوگا۔ سکولوں، کالجوں، مدرسوں اور گھروں میں بھی ماحولیات کے موضوعات پر گفتگو ہونی چاہئے اور آلودگی سے بچا ؤکے لئے حفاظتی اقدامات ہر شہری کو یقینی بنانا ہوں گے۔ اگر آلودگی اور گردوغبار کا یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو آئندہ دس پندرہ سالوں میں خوشبووں کے اس شہر میں سانس لینا بھی مشکل ہوجائے گا۔