معاشی اصلاحات

تلخ معاشی حقائق کو شیرین معاشی صورتحال سے تبدیل کرنے کے لئے جاری کوششیں کامیابی کے آس پاس منڈلا رہی ہیں۔ دسمبر دوہزاربائیس میں جب ڈالر کے قومی ذخائر پانچ ارب ڈالر سے کم ہوئے تب اِس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ پاکستا ن کیلئے قرضہ جات کا اتارنا مشکل ہونے لگا ہے۔ اُس نازک مرحلے پر مرکزی بینک نے درآمدی اجازت نامے (لیٹر آف کریڈٹ) پر مرحلہ وار پابندی عائد کر کے اور بعدازاں اِس پابندی میں مرحلہ وار نرمی کے ذریعے قومی خزانے کو خشک ہونے سے بچایا۔ اُمید تھی کہ ملنے والی اِس مہلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کرنے والے مالیاتی اداروں سے رجوع کیا جائیگا لیکن پاکستان  جن  شرائط پر مزید قرض چاہتا ہے‘ اُس کی خاطرخواہ پذیرائی نہیں ہو رہی۔ ’آئی ایم ایف‘ کا نواں جائزہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ کئی امور پر اتفاق ہونے کے باوجود‘ جن میں بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور اِس اضافے کے یکم جنوری سے اطلاق کا غیرمنصفانہ اعلان بھی ’آئی ایم ایف‘ کے اطمینان کے لئے کافی نہیں رہا۔ افسوسناک اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا کے دل میں پاکستان کے لئے نرم گوشہ نہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو سیلاب متاثرین یوں امداد و بحالی کے منتظر نہ ہوتے‘ جو موسمیاتی آفت زدہ ہیں اور دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت ناکردہ جرم کی سزا ملی ہے۔ بہرحال پاکستان پر ’آئی ایم ایف‘ کا دباؤ مسلسل بنا ہوا ہے جس کا مقصد بنیادی نوعیت کی مالیاتی اصلاحات لاگو کرنا ہے۔نومبر دوہزاربائیس کے وسط سے آج تک ایک ہی سوال کا مختلف زاوئیوں سے جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان ڈیفالٹ ہونے جا رہا ہے یا وہ پہلے ہی ڈیفالٹ ہو چکا ہے؟ کسی ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا مطلب یعنی اُس کے معیشت پر اثرات کو اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہی ہوتا ہے کہ اِس کی وجہ سے نئے اور پرانے قرض نہیں ملتے اور درآمدات رک جاتی ہیں۔ کوئی بھی ملک اپنے آپ ڈیفالٹ ہونے کا اعلان نہیں کرتا بلکہ یہ اعلان موڈیز اور ایس اینڈ پی جیسی ایجنسیوں کی جانب سے اُس کی درجہ بندی میں کمی سے ظاہر ہوتا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی قرض دہندگان کا اعتماد جاتا رہتا ہے چونکہ قرضوں کے بہاؤ میں کمی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر (ڈالر کی آمد) میں کمی واقع ہوتی ہے اِس لئے ڈیفالٹ کرنے والا ملک صرف وہی کچھ درآمد کرسکتا ہے جس قدر بیرون ملک مقیم پاکستان ترسیلات زر کرتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ ایک تو پاکستان کو کہیں سے بھی قرض نہیں مل رہا اور دوسری طرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی قانونی ذرائع سے رقومات بھیجنا کم کر رکھا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جنوری دوہزارتیئس کے دوران ترسیلات زر 1.9ارب ڈالر رہیں جو اِن میں کمی کا مسلسل پانچواں ماہ ہے۔ جنوری دوہزاربائیس میں 2.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہوئیں تھیں اور اگر جنوری دوہزارتیئس کا موازنہ جنوری دوہزار بائیس سے کیا جائے تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 13فیصد کم ترسیلات زر قانونی ذرائع سے کی ہیں۔ دیگر مہینوں میں ترسیلات زر میں کمی قریب 9 فیصد ہے جو اِس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ اِس مشکل کی گھڑی میں جبکہ پاکستان کو زیادہ ڈالرز یا دیگر غیرملکی کرنسیوں کی ضرورت ہے لیکن اِس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر درآمدی اور قرض اقساط کی ادائیگی جیسی ’لازمی ضروریات‘ پوری کرنے کے لئے بھی کافی نہیں ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ جنوری دوہزارتیئس کے دوران سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے 40 کروڑ 76 لاکھ ڈالر)‘ برطانیہ سے 33 کروڑ ڈالر‘ متحدہ عرب امارات سے 26 کروڑ ڈالر‘ اور امریکہ سے 21 کروڑ ڈالر کے آس پاس موصول ہوئیں جبکہ دیگر خلیجی ممالک جیسا کہ بحرین‘ کویت‘ قطر اور عمان سے مجموعی طور پر ترسیلات زر 243کروڑ 6لاکھ ڈالر سے زائد رہیں اور یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے مجموعی طور پر 239 کروڑ 6لاکھ ڈالر قانونی ذرائع سے پاکستان بھیجے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ترسیلات زر میں کمی کی بڑی وجہ ماہرین کی جانب سے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی مصنوعی طور پر کم شرح کو قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کرنسی کی بہت ہی مضبوط اور وسیع ’بلیک مارکیٹ‘ اُبھر کر سامنے آئی ہے کیونکہ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اُسے ڈالروں کے عوض زیادہ پاکستانی روپے ملیں اور چونکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے عوض اچھی قیمت ملتی ہے اِس لئے ترسیلات زر بینکوں (مالیاتی اداروں) سے اوپن مارکیٹ کو منتقل ہو گیا ہے۔ وہ ترسیلات زر جن سے پاکستان کو فائدہ اُٹھانا چاہئے لیکن اُس سے ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں پر مبنی کرنسی مارکیٹ منافع سمیٹ رہی ہے!نئے قرض اور ترسیلات زر کم ہونے کی وجہ سے درآمدات صرف اُسی قدر کی جا سکتی ہیں جس قدر قومی خزانے میں غیرملکی کرنسی ہو اور یہ غیرملکی کرنسی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے آتی ہے۔  یعنی یہ صرف وہی کچھ درآمد کر سکے گا جس قدر اِس کے پاس پیسے ہوں گے اور بہت سی ضروری درآمدات جیسا کہ ادویات یا علاج معالجے میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادے‘ آلات حتیٰ کہ اجناس بھی درآمد نہیں کی جا سکیں گی۔ اگر چھوٹی بڑی صنعتوں کو درکار خام مال (اِن پٹ) درآمد نہ کیا جا سکا تو اِس اُن کی پیداوار (آؤٹ پٹ) متاثر ہوگی نتیجتاً بیروزگاری بڑھے گی جس سے معیشت میں پیداوار کی مجموعی سطح کم ہوجائے گی اور اس سب کا فطری نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستانی روپے کی قدر کم ہوتی چلی جائے گی۔ مہنگائی (افراط زر) نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔ پیداواری خسارے کی وجہ سے معیشت سکڑ جائے گی۔ جن کے پاس پاکستانی روپے کی صورت سرمایہ ہوگا وہ اِس کا استعمال کرتے ہوئے بہت ہی کم خرید پائیں گے اور جن کے پاس روزگار (آمدنی کا ذریعہ) اور پیسہ نہیں ہوگا اُن کی حالت کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔