حمایت اللہ خان کاادھورا ایجنڈا 

واقعی قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں کم وبیش دوسال قبل نامعلوم خواہشات کی بناء پر جس شخض کو پی ٹی آئی کی حکومت نے انتہائی بھونڈے انداز میں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا اس شخص کو آج صوبہ کے خزانے کی کنجیاں سونپ دی گئی ہیں۔ ساتھ ہی انہیں ایک بارپھر برقیات وتوانائی کے معاملات بھی حوالہ کردیئے گئے ہیں جس کے بعد اب اُمید ہوچلی ہے کہ وہ اپنے اس ادھورے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے روزاوّل سے ہی جت جائیں گے جس پر صوبہ کی مستحکم معیشت کادارومدار ہے۔ پرویز خٹک کے بعد جب محمود خان صوبہ میں پی ٹی آئی کی دوسری حکومت کے کپتان کی حیثیت سے سامنے آئے تو ان کے سامنے بہت سے چیلنجز تھے جن میں سب سے اہم اوردیرینہ معاملہ شعبہ توانائی کاتھا۔اس شعبے میں ایک طرف پن بجلی منافع کے بقایاجات اور اس سے بھی بڑھ کر اے جی این قاضی فارمولا پر عملدر آمد کو یقینی بنانا تھا ساتھ ہی صوبہ کے لئے اضافی گیس کے حصول،صوبہ کے اپنے وسائل سے پیداہونے والی بجلی کی فروخت،ویلنگ سسٹم کاآغاز،صوبائی ٹرانسمشن اینڈ گرڈ کمپنی کاقیام اورپن بجلی منصوبوں کی تکمیل اور مزید منصوبوں کا آغاز اہم ترین ایشوز تھے۔ یہ تمام معاملات اپنی اپنی جگہ اہم اور فوری توجہ طلب تھے تاہم سب سے اہم مسئلہ اے جی این قاضی فارمولے کو پھرسے زندہ کرناتھا کیونکہ اس حوا لہ سے مرکزی حکومتوں کارویہ ہمیشہ سے معاندانہ قسم کارہاہے۔ ا س مرحلہ پر صوبائی حکومت نے انتہائی بہترین اوربروقت فیصلہ کرتے ہوئے مردان سے تعلق رکھنے والے ایک سابق بیوروکریٹ حمایت اللہ خان کو توانائی وبرقیات کے لئے وزیر اعلیٰ کے مشیر کے طورپر نامزد کردیا انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مختلف آسامیوں پر 34سال تک فرائض انجام دیئے۔ وہ سٹریٹجک پلاننگ،ادارہ جاتی تبدیلیوں کی مینجمنٹ،حکومتی اور نجی اداروں اور ترقیاتی ساجھے داروں کے ساتھ کام کاوسیع ترین تجربہ رکھتے ہیں۔وہ ڈی جی ادارہ تحفظ ماحولیات،ایڈیشنل سیکرٹری پی اینڈ ڈی خیبرپختونخواکے طورپر خدمات انجام دینے کے ساتھ صدرمملکت کی طرف سے واٹر ریسورسز اورہائیڈرو پاور ڈویلپمنٹ پروگرام ویژن 2025کے نیشنل کوآرڈینیٹر بھی رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سیکرٹری واپڈا،ڈی جی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پنجا ب،جائنٹ سیکرٹری کابینہ حکومت پاکستان،ڈی جی انٹرنیشنل ریلیشنز، آڈیٹرجنر ل پاکستان جبکہ وفاقی وزارت تجارت میں فارن ٹریڈ کے لئے جائنٹ سیکرٹری کے طورپر بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی طرح اکنامک افیئر ز ڈویژن میں ایڈیشنل سیکرٹری،سپیشل سیکرٹری وزارت پانی و بجلی کے طورپر بھی کام کرچکے ہیں جبکہ سیکرٹری صدر پاکستان کی حیثیت سے ریٹائر ڈ ہوئے جس کے بعد ان کو پرویزخٹک حکومت کی طرف سے نیپرامیں ممبر نامزد کیاگیا اس عرصہ کے دوران انہوں نے مقدوربھرکوشش کی کہ بجلی منافع کے معاملہ پر صوبہ کو زیادہ سے زیادہ ریلیف کی فراہمی میں کردار ادا کریں۔2018ء کے عام  انتخابات سے قبل جب صوبہ میں نگران سیٹ اپ کے لئے وزیر اعلیٰ کے ناموں پر غور ہورہاتھا تو ان کانا م بھی پینل میں شامل تھا محمود خان کی سربراہی میں جب پی ٹی آئی کی دوسری  صوبائی حکومت نے چارج سنبھالاتو حکومت نے حمایت اللہ خان کے وسیع ترتجربہ سے فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے ہی ان کو مشیربرقیات و توانائی نامزدکردیا او رپھر اس حیثیت میں وہ روزاوّل سے ہی بجلی منافع کے معاملہ پر کیس کی تیاری میں جت گئے۔حمایت اللہ خان چونکہ اسلام آباد کی بیوروکریسی کاحصہ رہے ہیں اس لئے اس کی ذہنیت اورچالوں سے بخوبی آگاہ تھے چنانچہ انہوں نے انتہائی نپے تلے انداز میں صوبہ کامقدمہ لڑناشروع کیا۔پہلے مرحلہ میں انہوں نے جس طرح قاضی فارمولہ کوزندہ کرکے وفاق سے صوبہ  کے لئے رقم کاتعین بھی کردیا اورپھر سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے صوبہ کو اس فارمولہ کے تحت رقم کی ادائیگی کے لئے آؤٹ آف باکس حل تلاش کرنے کے لئے کمیٹی قائم کرکے پھر اس کے دواجلاسوں میں سفارشات بھی پیش کردی تھیں۔یہ اس صوبہ کی تاریخ کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ وفاقی حکومت نے نہ صرف صوبہ کو 2016سے قاضی فارمولہ کے تحت ادائیگی بلکہ بقایہ جات کی فراہمی پر بھی آمادگی ظاہر کردی تھی۔ حمایت اللہ خان نے بڑی مہارت سے ایک طرف ویلنگ سسٹم کے لیے میدان ہموار کیا  جبکہ دوسری طرف صوبہ کی اپنی ٹرانسمیشن اینڈ گرڈکمپنی کے قیام کے لئے تمام ترمخالفتوں کے باوجود لائسنس بھی حاصل کرکے دکھایا۔ساتھ ہی تیل وگیس کے اہم وفاقی اداروں میں پہلی بار صوبہ کو نمائندگی بھی دلائی۔ بدقسمتی سے اس وقت پی ٹی آئی کے بعض مرکزی قائدین جووفاقی حکومت میں بھی اہم ذمہ داریوں پر فائز تھے وہ حمایت اللہ خان کی مخالفت پرکمربستہ ہوگئے چنانچہ  انہوں نے جب دیکھا کہ اب وہ مرکزی حکومت اور اسلام آباد کی بیوروکریسی کے ساتھ مزید نہیں لڑ سکتے تو باعزت طریقہ سے خود کو تمام سسٹم سے الگ کرنے کافیصلہ کرلیا۔راقم نے ان دنوں ایک کالم میں اس حوالہ سے تفصیل سے بات کی تھی جس پر پھراس وقت کے اہم ذمہ داروں نے خفگی کااظہار بھی کیاتھا۔درحقیقت اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے پاس حمایت اللہ خان کے استعفے کے حوالہ سے کوئی جواز نہیں تھا۔ یوں صوبہ کا قیمتی وقت برباد کردیاگیا حمایت اللہ خان کے استعفے کے بعد سے پن بجلی منافع کے بقایا جات اور قاضی فارمولے کے حوالے سے پیشرفت رک گئی تھی۔ پھر اگلے ڈیڑھ سال تک کوئی بھی صوبہ کامقدمہ نہ لڑسکا جس کے بعد اب صورت حال یہ ہے کہ پن بجلی منافع کی مد میں بھی اربوں روپے مزید وفاق کے ذمہ جمع ہوچکے ہیں۔ حمایت اللہ خان کو ایسے مرحلہ پر خزانے کی چابیاں سونپی گئی ہیں کہ جب خزانہ عملی طورپر خالی ہے اس خزانے کو کیسے بھرناہے اور پھر وفاق کے ساتھ اڑھائی سال قبل کے رُکے ہوئے معاملات کیسے دوبارہ چلانے ہیں یہی آج انکا سب سے بڑا امتحان ہے۔نگران وزیر اعلیٰ پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ صوبہ کامعاشی مقدمہ مرکز کے ساتھ لڑیں گے اور اپنی پہلی ملاقات میں ہی انہوں نے وزیراعظم شہبازشریف کو مرکز کی طرف سے روکے گئے فنڈز کی نتیجہ میں صوبہ کو درپیش مشکلات سے آگاہ کردیاتھا جس کے بعد اب صوبہ کے جامع معاشی مقدمہ بنانے کی ذمہ داری نگران مشیر خزانہ حمایت اللہ خان کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ امید رکھی جانی چاہئے کہ معاشی مقدمہ لڑنے کے ساتھ ساتھ اب وہ پن بجلی منافع اور قاضی فارمولے کے حوالہ سے اپنے ادھورے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے بھی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اُتریں گے حسب سابق ہمارا قلمی تعاو ن اس سلسلہ میں انہیں مکمل طورپر حاصل رہے گا۔