ملک میں سیاسی استحکام کے لئے ’سیاسی ضابطہ اخلاق‘ پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں پیپلزپارٹی نے تجویز دی ہے کہ سیاسی جماعتیں کم سے کم سیاسی ایجنڈے پر مبنی ضابطہئ اخلاق وضع کریں تاکہ وہ کم از کم انتہائی بنیادی مسائل پر بات کرسکیں۔ 1973ء کے آئین کی ’گولڈن جوبلی تقریبات‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ”پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اِس سلسلے میں پیشرفت کا آغاز کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جسے تمام مسائل کے حل اور آگے بڑھنے کے لئے ضابطہئ اخلاق وضع کرنے پر سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کی جانب سے دکھائی جانے والی ’عدم دلچسپی‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”کسی ایک مؤقف پر ڈٹ جانا‘ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے۔“سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے سارے رہنما ’پی ڈی ایم‘ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے مخالف نہیں۔ بات صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اُنیس سو نوے کی دہائی کی سیاست پر نظر ثانی کر رہے ہیں بلکہ اب تو سیاست ماضی سے بہت مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ اُنیس سو نوے کی دہائی میں چوبیس گھنٹے ”بریکنگ نیوز کا چکر“ نہیں تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا تھا جس نے ملک کی سیاسی ثقافت کو نقصان پہنچایا ہے۔ سوشل میڈیا اور سیاسی ٹاک شوز کی عدم موجودگی میں‘ بہت سے ناپسندیدہ تبصرے نہیں ہوتے تھے۔ آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ کچھ ایسا ہے جو ماضی میں نہیں دیکھا گیا۔ سیاسی رہنماؤں کے بیانات کا عکس پھرا ن کے کارکنوں کے روئیوں میں بھی نظر آنے لگتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ صورتحال ہاتھ سے نکل جائے‘ تمام سیاسی جماعتوں کو ”نئے میثاق جمہوریت“ یا ضابطہئ اخلاق پر دستخط کرنے چاہئیں تاکہ سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی زندگی میں بھی سکون آئے۔ سیاسی دشمنی اور ذاتی دشمنی کے درمیان فرق واضح ہو سکے۔ سیاست میں مختلف النظریات معاشرہ ہونا بُری بات نہیں لیکن ایک دوسرے کے بارے میں عدم برداشت اور غیرمحتاط اظہار خیال کی وجہ سے ’زندگی اور موت‘ جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو بے مثال چیلنجز کا سامنا ہے‘ یہ ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور آئندہ عام انتخابات سے قبل ایک میکانزم تیار کریں۔ ’پی ڈی ایم‘ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان پایا جانے والا تناؤ ختم کرنا ممکن ہے لیکن یہ ابھی تک اُس مقام (انتہا) تک نہیں پہنچا کہ واپسی نہ ہو سکے اور اس سے پہلے کہ زیادہ کچھ بُرا ہو‘ سیاست دانوں کو یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ تمام فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں اور سیاسی جماعتیں ایک نیا ضابطہ وضع کریں تاکہ وہ اپنی جماعتوں اور ملک کو سیاسی تنہائی سے دور کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں ایک دوسرے پر طنز کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں اور سوچ قومی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کریں۔ پاکستان جس معاشی مشکل کے دور سے گزر رہا ہے اُس میں مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے نظریاتی ہوں یا دیگر اختلافات‘ سیاسی استحکام کی راہ میں حائل نہیں ہونے چاہیئں۔ پیپلز پارٹی کی کوششوں کے ساتھ وزیر اعظم کو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کی حتمی تاریخ کا اعلان کرنا چاہئے جو سات فروری کو ہونی تھی لیکن اب تک دو مرتبہ ملتوی کی جا چکی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اس میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور تحریک انصاف کو مناسب انداز میں دعوت دی جائے تو اِس قومی ضرورت کے لئے پیشکش مسترد کرنے کا کوئی عذر‘ جواز یا بہانہ باقی نہیں رہے گا۔یعنی دونوں صرف سے نرمی اور لچک کا مظاہرہ ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس وقت ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کا حل نکالنے کے لئے سب کا مل بیٹھنا کس قدر اہم ہے اور اس وقت قومی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے چاہے اس کا تعلق حکومت سے ہو یا حزب اختلاف سے کہ وہ موجودہ مشکل حالات سے ملک کو نکالنے کے لئے مل بیٹھ کر فیصلہ کرے۔