پاکستان میں ساتویں مردم شماری کے سلسلے میں سرگرمیوں کا باضابطہ آغاز اُن تیاریوں سے تھا جو 20 جولائی 2022ء سے جاری ہیں جبکہ مردم شماری کے عمل میں عوام سے رابطہ 20 فروری 2023ء سے ہو گا اور اِس پوری مشق پر 34 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ طے شدہ حکمت عملی کے تحت مردم شماری کے مکمل و حتمی نتائج 30 اپریل 2023ء کے روز الیکشن کمیشن کے حوالے کئے جائیں گے اور پھر اِنہی اعداد وشمار کی بنیاد انتخابی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ مردم شماری سیاسی ضرورت (اِنتخابی حلقہ بندیوں) سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے کیونکہ اِسی کی بنیاد پر قومی وسائل کی تقسیم اور غربت و ضروریات کا تعین کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مردم شماری کے موضوع پر اگرچہ زیادہ تبادلہئ خیال نہیں ہو رہا اور نہ ہی اِسے جامع بنانے کے لئے تجزیہ کاروں کی طرف سے تجاویز سامنے آ رہی ہیں تاہم اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘بدقسمتی سے ترقی یافتہ ممالک سے ہٹ کر جنوبی ایشیاء میں اس طرف کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔اس کی ایک مثال پڑوسی ملک بھارت ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں برس بھارت کی
آبادی 1.4 ارب سے زیادہ ہونے پر یہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا! کیا اِس قدر آبادی ہونا کسی ملک کے لئے اعزاز و فخر کی بات ہے جبکہ بھارت میں صرف آبادی ہی نہیں بلکہ غربت کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے! ماہرین کے مطابق بھارت کی کل آبادی کے حوالے سے حکومتی اعدادوشمار اندازوں پر مبنی ہیں اور جنگی جنون کو ہوا دینے والی بھارتی حکومت نے اپنے عوام کو آبادی میں اضافے اور اس کے نتیجے میں وہاں پر عدم مساوات پر مبنی پالیسیوں سے بالکل بے خبر رکھا ہے۔حد تو یہ ہے کہ ہر سال آبادی میں کتنے لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے اِس حوالے سے درست اعدادوشمار دستیاب نہیں اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ بھارت کی آبادی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ اب گنتی کے قابل بھی نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ ایشیائی ممالک میں سب سے بڑی معیشت کا حال یہ ہے کہ اِس میں سماجی و اقتصادی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا عمل متاثر ہے اور ایک طرح سے بھارتی حکومت کی تمام تر توجہ اقلیتوں کو دبانے پر مرکوز ہے۔ نرنیدر مودی سوچ سمجھ کر مردم شماری میں تاخیر کر رہے ہیں تاکہ بھارت میں بے روزگاری اور عوام کو درپیش معاشی مشکلات اور اِن مشکلات کیلئے مختص ہونیوالے ترقیاتی فنڈز کا بھرم برقرار رہے جبکہ دوسری طرف بھارتی حکومت تمام وسائل کو جنگی جنون میں جھونک رہی ہے اور عوام کو غربت اور مسائل میں چھوڑتے ہوئے اسلحے کے انبار لگا رہی ہے۔ بھارت میں آبادی اور سماجی مسائل کی صورتحال کے بارے میں خود بھارتی تجزیہ کار لکھ رہے ہیں کہ حکومت کے اکثر اعدادوشمار غلط ہونے کی وجہ سے عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر جو کچھ بھی خرچ کیا جارہا ہے وہ محض ایک دھوکہ ہے۔ بھارت کو اِس وقت بے روزگاری‘ بھوک‘ غربت اور کورونا وبا سے اموات کا سامنا ہے جبکہ موجودہ حکمراں جماعت (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے 9 سالہ دور کو ملکی تاریخ کے 65سالہ دور سے بدتر قرار دیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے پیشگوئی کی ہے کہ ”یکم اپریل دوہزارتیئس کو بھارت کی آبادی ایک ارب چوالیس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی اور بھارت آبادی کے لحاظ سے چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔“ سال دوہزار گیارہ کی مردم شماری میں بھارت کی آبادی 1 ارب 21 کروڑ تھی۔ اس تمام بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ بھارتی حکومت کی توجہ جنگی جنون اور اسلحے کے ڈھیر لگانے پر مرکوز ہے اور اس طرح وہ ایک طرف خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے تو دوسری طرف اپنی عوام کو بھی غربت میں دھکیل رہی ہے۔جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے تو یہ کسی بھی ملک میں وسائل اور آبادی میں تناسب اور پھر منصوبہ بندی کے حوالے سے اہم ترین مرحلہ ہے اس پر جس قدر توجہ دی جائے کم ہے اور اس پر اگر وسائل صرف بھی ہوتے ہیں تو وہ اس لئے ضائع نہیں جاتے کہ اس کے نتیجے میں پھر وسائل کی بہتر منصوبہ بندی اور اس کی آبادی کے تناسب سے تقسیم ممکن ہو جاتی ہے۔