بیوروکریسی کاسیاسی قبلہ؟

ایک واقف حال نے ایک دلچسپ واقعہ سنایاکہنے لگے کہ چندروزقبل ایک محفل میں صوبہ کے ایک سینئر بیوروکریٹ موجودہ حکومت کی ایک اہم شخصیت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے نئے حکمران کی طرف سے کوئی فرمائش ہوئی بڑے بیوروکریٹ نے جواپنی چاپلوسی کیلئے خاصے مشہور ہیں‘نے فوری طورپر ایک چھوٹے صاحب کوفون ملا کرنہ صرف کا م فوری طورپر کرنے کے احکامات جاری کئے بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت قصہ پارینہ بن چکی جس کے ساتھ ہی ہمارا سیاسی قبلہ بھی تبدیل ہوگیاہے اب جو نئے صاحبان کہیں گے اس کو بجا لاناہی ہماری اصل ذمہ داری ہے‘ یہ سن کر موقع پرموجود نئے حکمران نمائندے بھی چوڑے ہوگئے اور تفاخر کے ساتھ ہمیں دیکھنے لگے یہ واقعہ پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ موجودہ حکمران جماعتوں کیلئے بھی درس عبرت ہوناچاہئے جس بیوروکریٹ کاذکرکیاگیا اس کو پی ٹی آئی کی حکومت نے بہت ہی شوق کے ساتھ یہ سمجھ کرتعینات کیاتھا کہ اس سے زیادہ تابعدار اوروفادار اور کوئی نہیں یہ ٹھیک ہے کہ افسرشاہی کاکام حکومت کے احکامات بجالاناہوتاہے مگر یہاں تو اکثر افسران ریاست کے بجائے حکمران سیاسی جماعتوں کے نوکر بنے دکھائی دیتے ہیں ریاست سے بڑھ کران کی وفاداری وتابعدار ی حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہوا کرتی ہے اسی سے قباحتیں جنم لیتی ہیں اور پھر یہ شاطر افسران ہوا کے بدلتے رخ کے ساتھ اس تیزی کے ساتھ سیاسی قبلے بدل لیتے ہیں کہ خودسیاسی جماعتوں کے لوٹوں کو بھی شرم آجاتی ہے ایسے لوگ اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتے ہیں مگر اپنے پورے طبقے کی بدنامی کاباعث بن کررہ جاتے ہیں ایسے افسران کسی کے وفادار نہیں ہوتے ان کی وفاداریاں اپنے مفادات کے گر دہی گھومتی ہیں سسٹم کی خرابی میں اسی نوع کے افسران کاکردار کارفرمارہتاہے ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا کرتاتھاجب کسی بادشاہ کے خلاف بغاوت کامیاب ہوجاتی تو بہت تھوڑے سے نمک خوار ہی وفاداری کا دم بھرتے دکھائی دیتے اکثریت کے سیاسی قبلے راتوں رات تبدیل ہوجاتے ان لوگوں پر نئے حکمران کی طرف سے نوازشات کی بارش ہواکرتی تھی اسی لئے تو عام طورپر بغاوت کی کا میابی کے امکانات زیادہ ہی ہوا کرتے تھے تاہم تاریخ میں ایک بادشاہ ایسا بھی گذراہے جس نے اس معاملہ میں بالکل ہی الگ حکمت عملی اختیار کرکے سب کو حیران کرکے رکھ دیا تھا تاریخ اس کو علاؤالدین خلجی کے نام سے جانتی ہے جی ہاں وہی سلطان علاؤالدین خلجی  جس کی گردن پر اس کے چچا اورسسرسلطان جلال الدین خلجی کا خو ن قیامت تک رہے گا مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ جب علاؤالدین نے دھوکے سے جلال الدین خلجی کوقتل کیاتو اس کے وفاداروں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے خزانوں کے منہ کھول دیئے دہلی فتح کرنے سے قبل اس وقت کی شاہی کابینہ اور بیوروکریسی کی ہمدردیاں حاصل کرنا ضروری خیال کیاگیا ویسے بھی دستو رزمانہ تھا جلال الدین خلجی کے بیٹے کی طرف سے دہلی سے جو امراء مقابلہ کیلئے روانہ کئے گئے تھے وہ ایک ایک کرکے علاؤالدین کے ساتھ شامل ہوتے گئے اوریوں راتوں رات وزراء اور بیوروکریسی کاسیاسی قبلہ او روفاداریاں بدل گئیں علاؤ الدین نے اس دوران اپنی پوزیشن مستحکم کرنی شروع کردی ٹھیک دوسال کے بعد وہ نئے روپ میں سامنے آیا اس نے دیگرشاہان کے برعکس ایک ایسا قدم اٹھایاجس نے اسے ایک بارپھرسب سے ممتاز کردیا اور جس پر آج بھی مؤرخین حیران دکھائی دیتے ہیں  دوسال مکمل ہونے پر اس نے جلا ل الدین کی کابینہ اور بیوروکریسی کے ایک ایک رکن کی زندگی کاچراغ گل کردیا ان لوگوں نے اپنے محسن اور محسن زادوں کے ساتھ غداری کی توپھر کسی دوسرے کو ان سے کسی قسم کی امیدرکھنا بالکل خلاف عقل تھا سلطان علاؤالدین اچھی طرح سے جانتاتھاکہ جس طرح یہ اپنے آقا سے پھر گئے تھے اس طرح ان کو مجھ سے پھرتے کیا دیر لگے گی اسلئے جو امراء  غداری کرکے علاؤالدین کے ساتھ آن ملے تھے ان کو سخت سزائیں دی گئیں سب کے مال واسباب،زرونقد اورجاگیریں ضبط کرلی گئیں اکثر جلا وطن کئے گئے بعض کو اندھا کیاگیا بعض کو سزائے موت دے دی گئی تاہم اس کے ساتھ ساتھ سلطان علاؤ الدین نے سب سے نرالا کام یہ کیاکہ جن امراء نے جلال الدین کے ساتھ وفاداری آخری وقت تک نبھائی ان کو کسی قسم کانقصان نہیں پہنچایاگیا نقصان پہنچاناتو ایک طرف ان کے مراتب میں بھی کوئی کمی نہیں کی گئی گویا علاؤالدین خلجی نے رہتی دنیاتک کیلئے جو فارمولا دیا وہی اصل حقائق پر مبنی ہے ہمارے ہاں جو دستور چلا آرہاہے اسکے مطابق بیوروکریسی اور دیگر مفادپرست چڑھتے سورج کے پجار ی بن جاتے ہیں ایسے میں وہ  اصول پسند کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں جو ذاتی مفادات کے اسیر نہیں ہوتے یہ بھی حقیقت ہے کہ بیوروکریسی میں بھی ایسے افسران کی کمی نہیں جو ہمیشہ قانون کی ناک کی سیدھ میں چلتے رہتے ہیں انہی مٹھی بھرسرپھروں کی وجہ سے ہی یہ سسٹم چل رہاہے ہمارے صوبے کادامن کبھی بھی ایسے سرپھروں سے خالی نہیں رہا مگر بدقسمتی سے ہر حکمران میں علاؤالدین جتنی سمجھ اوراس جتنا ظرف نہیں ہوا کرتا سو مفاد پرست ہمیشہ آگے رہتے ہیں جن کاسیاسی قبلہ ہمیشہ تبدیل ہوتارہتاہے حالانکہ افسر شاہی بلکہ اگر نوکرشاہی کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا‘کاقبلہ صرف اورصرف ریاست ہی ہے یہ لوگ حکومت یا کسی سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ ریاست کے نوکرہوتے سو ان میں اتنی ہمت اوراخلاقی جرات ہونی چاہئے کہ حکمرانان وقت کے غلط احکامات پر کھل کرناں کہہ سکیں ماضی میں ایسی شاندار مثالیں موجود ہیں کہ سرپھرے افسر نے حکمران کوناں کہہ کرثابت کردیاتھاکہ وہ حکومت کے نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے ملازم ہیں‘ موجودہ نگران وزیراعلیٰ اعظم خان ہی کو لے لیں ایک بار جنرل ایوب خان اور دوسری مرتبہ جنرل فضل حق کوناں کہہ کر ثابت کرچکے ہیں کہ اصولو ں پر ڈٹنے والے ہی نام ومقام پیدا کرتے ہیں۔