بالآخر حکومت نے وہ فیصلہ کر ہی لیا۔ جو آج سے آٹھ مہینے پہلے لینا چاہئے تھا‘وفاقی حکومت نے جو کفایت شعاری کمیٹی قائم کی تھی اس نے قومی اسمبلی کو اپنی تجاویز پیش کردی ہیں کفایت شعاری کمیٹی نے وفاقی کابینہ کا حجم مختصر کرنے، ریٹائر ہونیوالے بڑے افسروں کو ایک سے زیادہ پلاٹ نہ دینے، سرکاری افسروں سے بڑی گاڑیاں واپس لینے، پانچ لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دینے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کو دی جانیوالی مفت بجلی کے یونٹ ختم کرنے اور لگژری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی لگانے کی تجاویز پیش کی ہیں کمیٹی نے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد کٹوتی کی بھی تجویز دی ہے‘یہ صرف تجاویز ہیں ہوسکتا ہے کہ اراکین اسمبلی اور بڑے سرکاری افسران اپنے پروٹوکول، تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی تجویز سے اتفاق نہ کریں کیونکہ جن لوگوں کو قومی وسائل پر عیش و عشرت کرنے کی عادت پڑچکی ہوان سے دستبردار ہونا آسان نہیں ہے ملک آج معاشی طور پر جس سٹیج پر ہے اس بحران سے نکلنے کیلئے بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی قرضے کی قسط جاری کرنے کیلئے قومی سطح پر کفایت شعاری اپنانے کی شرط رکھی ہے۔حکومت نے کفایت شعاری مہم کے ساتھ آمدن میں اضافے کیلئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر 18فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت سگریٹ، شیمپو، کھانے کا تیل، صابن، پرفیوم، ڈبے والی دودھ، بسکٹ، جام، ٹافیاں، گھی، چائے کی پتی،سمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ٹی وی، ایل ای ڈی، جوس بلینڈر اور دیگر الیکٹرانک اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگااور مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر محصولات کی مد میں عوام سے 170ارب روپے نکالنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی، گیس، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی بڑے اضافے کی توقع ہے حکومت اگر عوام پر بوجھ بڑھانے کے بجائے ان اشیاء اور مصنوعات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اقدامات کرے جن کو آج تک دانستہ طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا تو قومی آمدن میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے مشینری کی درآمد، خام مال اور زرعی آلات پر ٹیکسوں میں اضافے سے صنعتوں اور زراعت کا پہیہ رک سکتا ہے یہی دو شعبے ہیں جن کو مراعات دے کر قومی وسائل میں جائز طریقے سے اضافہ کرنا ممکن ہے‘ پاکستان سٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے اور دیگر منافع بخش ادارے غیر ضروری اخراجات اور ملازمین کی بہتات کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ان اداروں میں ڈاؤن سائزنگ اور مراعات میں کمی کے ذریعے انہیں دوبارہ منافع بخش بنایاجاسکتا ہے جس کیلئے عارضی اقدامات کے بجائے طویل المعیاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ ملک بھر میں مختلف سرکاری اداروں کی لاکھوں ایکٹر اراضی بیکار پڑی ہے اوقاف کی ملکیت جو جائیدادیں کرائے پر لگی ہوئی ہیں وہاں سے پچاس سال پرانی شرح سے کرایہ مل رہا ہے اور اکثر عمارتیں مخدوش ہوچکی ہیں فاضل سرکاری اراضی کو نیلام کرکے اربوں روپے کے وسائل پیدا کئے جاسکتے ہیں‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام پر بے تحاشہ بوجھ ڈال کر حکومت آئی ایم ایف سے جو قرضہ لے رہی ہے اس کے ملنے کی صورت میں معیشت کس قدر مستحکم ہوگی؟کیا آئی ایم ایف کا قرضہ ملنے کے بعد عوام کو ریلیف مل سکتا ہے؟اس کا جواب ارباب اختیار و اقتدار اور پالیسی سازوں کے پاس نہیں ہے کفایت شعاری کا مطلب عیش و عشرت کم کرنا نہیں ہوتا بلکہ پیٹ پر پتھر باندھنا ہوتا ہے‘ اس ملک کے عوام گذشتہ 75سال سے ملک کی خاطر مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں اب ان شہریوں کی باری ہے جنہوں نے اب تک ملک کو کچھ نہیں دیا۔وہی لوگ قومی ایوانوں میں بھی جاتے ہیں پالیسیاں بھی بناتے ہیں اور خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔آج ملک جس موڑ پر کھڑا ہے اسے بحران سے نکالنے کیلئے قربانی دینے کی باری اب متمول لوگوں کی ہے۔