عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا اصرار ہے کہ حکومت اگر اپنے اخراجات بشمول سرکاری اداروں کا خسارہ کم نہیں کرتی تو دوسری صورت میں آمدنی بڑھانے کے لئے محصولات (ٹیکسز) کی شرح میں اضافہ کرے۔ اپنی شرائط منوانے کیلئے ’آئی ایم ایف‘ نے پہلے عمل درآمد‘ بعد میں قرض دینے کا وعدہ کیا ہے جبکہ ٹیکسوں کی ذریعے حکومتی آمدنی بڑھانے پر اتفاق ’بیل آؤٹ مذاکرات‘ کی کامیابی یا ناکامی کا باعث بنیں گے۔ اور اِس مقصد (حکومتی آمدنی بڑھانے کے ہدف) کو حاصل کرنے کیلئے ’170ارب روپے‘ کے اِضافی ٹیکس اقدامات متعارف کرا دیئے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ کی جانب سے اِن اقدامات کی منظوری کے بعد حاصل ہونیوالی آمدنی سے بجٹ خسارہ کم کیا جائیگا جبکہ قومی خسارہ کم کرنے کا ہدف بھی پیش نظر رکھا جائیگا محدود وقت اور آپشنز کیساتھ دلیل یہ بھی دی گئی ہے کہ اِن معاشی حالات میں اِسکے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ نئے اقدامات کے تحت سیلز ٹیکس کی شرح سترہ فیصد سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد جبکہ تمباکو کی صنعت‘ہوائی ٹکٹوں اور مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے سے متوسط و غریب طبقات (عام آدمی) پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا لیکن یہ سوچ درست نہیں کیونکہ پاکستان کو صرف مہنگائی نہیں بلکہ خودساختہ مہنگائی کا سامنا ہے اور معاشی بحران سے ناجائز فائدہ اُٹھانے والوں نے راتوں رات مہنگائی میں اضافہ کر دیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ مہنگائی کو قابو میں رکھنے کیلئے ’خودساختہ مہنگائی‘ کرنیوالوں کیخلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے ڈیفالٹ جیسے خطرے سے دوچار حکومت کے پاس ’آئی ایم ایف‘ مطالبات پورا کرنے اور جلد از جلد بیل آؤٹ پروگرام (قرض) حاصل کرنے کیلئے ’پیشگی اقدامات‘ پر تیز رفتار عملدرآمد کے علاؤہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا لیکن محصولات جمع کرنے کیلئے بالواسطہ ٹیکسوں پر مسلسل انحصار اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ آنیوالی حکومتیں بھی یہی ”آسان راستہ“ اختیار کریں گی اور اپنے وسائل کو ترقی دینے‘ قرضوں پر انحصار کم کرنے اور سرمایہ داروں پر زیادہ شرح سے ٹیکس لگانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جائیگا۔ ضرورت اُن تمام اشیا پر ٹیکسوں کی شرح میں ہزاروں گنا اضافے کی ہے جن کا تعلق آسائش اور نمودونمائش سے ہے۔ ایک عام آدمی جو پہلے ہی ہر یوٹیلٹی بل اور ہر خریداری پر اضافی ٹیکس ادا کر رہا ہے اُس پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنا ناانصافی ہے ’آئی ایم ایف‘ کی جانب سے ٹیکس دہندگان (ٹیکس نیٹ) میں اضافے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا لیکن اِس سلسلے میں زیادہ بات چیت نہیں کی جا رہی ذہن نشین رہے کہ ایک ایسے وقت میں جب حکومت ’آئی ایم ایف‘ قرض حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں 0.4 فیصد کمی آئی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اِسی عرصے سے کیا جائے تو تب یہ 4.8 فیصد تھی‘ رواں سال 4.4 فیصد ہو گئی ہے‘ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں یہ کمی‘ ایک ایسے رجحان کی نمائندگی کر رہی ہے جن سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ رواں مالی سال کے باقی ماندہ چھ ماہ میں ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس جمع کرنے کے اپنے ہدف حاصل نہیں کر سکے گا یعنی پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی میں ٹیکسوں سے حاصل ہونیوالی آمدنی کم رہے گی یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ’آئی ایم ایف‘ حکومتی آمدنی میں اضافہ چاہتا ہے اور آمدنی کے وسائل سے متعلق خلا پُر کرنے کیلئے نئے مستقل ٹیکس اقدامات پر زور دے رہا ہے کیونکہ ماضی میں ’آئی ایم ایف‘ سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے قرض پر منحصر معیشت کا سب سے نمایاں اور نقصاندہ پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ترقیاتی اخراجات میں تیزی سے کمی آتی ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بڑھتا رہتا ہے اور حکومت کو دستاویزی کاروبار اور صارفین دونوں پر بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے پاکستان میں دنیا کا کم ترین ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب‘ پایا جاتا ہے اور اِس کی کئی وجوہات (پس پردہ محرکات) میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ناقص‘ بدعنوان اور غیر مؤثر ٹیکس وصولی کے نظام سے وابستہ فیصلہ ساز اور افراد ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی قوت ارادی کی کمی کے باعث ٹیکس چوری معمول بن گیا ہے اور اب ٹیکس چوری کو ’ٹیکس چوری‘ سمجھا بھی نہیں جاتا بلکہ اِسے ’ٹیکس مینجمنٹ‘ کا نام دیا جاتا ہے اور اِس پورے بندوبست کی عام آدمی کو بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ معیشت میں غیر قانونی رقوم کی گردش کو روکنے کیلئے اقدامات کی بجائے ٹیکس چوری کی حوصلہ افزائی کرنیوالے اقدامات میں اضافہ ہو رہا ہے مثال کے طور پر حکومتی پالیسیوں نے جائیداد کی خریدوفروخت کے شعبے (رئیل اسٹیٹ سیکٹر) میں کالے دھن کے استعمال اور منافع پر قابل ٹیکس نہیں سمجھا اور نہ ہی اِس شعبے سے خاطرخواہ زیادہ وصولی پر توجہ دی ہے کالا دھن رکھنے والے رقومات کی ترسیل کیلئے قانونی ذرائع کا استعمال نہیں کرتے جسکی وجہ سے ایک الگ مسئلے نے جنم لے رکھا ہے۔ عجیب صورتحال ہے کہ جو شخص ٹیکس ادا نہیں کرتا اُس کیلئے بینک اکاؤنٹس رکھنے کی کوئی کم سے کم حد مقرر نہیں لیکن جو شخص ٹیکس ادا کرتا ہے اور وہ باقاعدہ ٹیکس دہندہ کے طور پر ’ایف بی آر‘ کے پاس رجسٹر ہے اُس سے دستاویزی ثبوت طلب کئے جاتے ہیں اور اِس سلسلے میں سختی بھی کی جاتی ہے۔ ’ایف بی آر‘ کے اس دعوے کے باوجود کہ اس نے تین لاکھ سے زائد افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے جو پُرآسائش زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو کثرت کے ساتھ بیرون ملک سفر کرتے ہیں لیکن وہ ٹیکس نیٹ کا حصہ نہیں یا ٹیکس نیٹ کا حصہ بن کر فائدہ تو اُٹھا رہے ہیں لیکن حسب آمدنی شرح سے ٹیکس ادا نہیں کر رہے! ضرورت جہاں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی ہے وہیں ٹیکس نیٹ میں شامل ہو کر اِسے چکمہ دینے والوں کا احتساب بھی ضروری ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹیکس نظام میں سقم موجود ہیں جیسا کہ ٹیکس دہندگان کی بڑی تعداد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں میں فرق کا فائدہ اٹھانے کیلئے اپنے گوشوارے داخل کرتی ہے ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب‘ اس وقت تک بڑھنے کا امکان نہیں جب تک یہ بات یقینی نہیں بنائی جاتی کہ رئیل اسٹیٹ کے سرمایہ کار‘ درآمدی پرآسائش گاڑیاں استعمال کرنیوالے اور کثرت سے غیر ملکی سفر کرنیوالوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے۔