ایک زمانے تھا کہ پرانے شہروں میں ایک تواتر کے ساتھ روایتی میلے لگا کرتے تھے، مگر پھر زمانے کا چلن بدلا اور سال میں ایک دو بار لگنے والے میلہ کی وہ گہما گہمی اور میلے میں بطور خاص ملنے والے سارے روایتی کھانے معمول کی سرگرمی بن گئی، بازاروں میں میلہ سے زیادہ گہما گہمی اور رونق بڑھنے لگی اس لئے وہ روایتی میلے رفتہ رفتہ شہروں سے تو کیا ذہن سے بھی محو ہونے لگے، اور پھر گاؤں نے بھی شہر سے اثر لینا شروع کر دیا، اور وہ دلچسپ میلے خیال و خواب ہوئے کیونکہ شہروں کے بازاروں جیسا رونق میلہ اب گاؤں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگا تھا، گاؤں کی چھوٹی بڑی ہٹیاں اب بڑی دکانوں میں بدل گئی تھیں اور چھوٹی سی بزریا میں کئی منزلہ پلازے اور شاپنگ مال کھلنے لگے تھے، ایک اپنے گاؤں اکوڑہ خٹک کی بات کروں تو جس میدان میں ہر بدھ کے دن مویشیوں کی خرید و فروخت کی منڈی لگتی تھی جس میں قرب و جوار کے دیہاتوں سے بھی لوگ آتے تھے اس لئے ان کی سہولت کے لئے کھانے پینے کی عارضی دکانیں لگنی شروع ہوئیں تھیں گہما گہمی اور رونق دیکھ کر مویشیوں اور اشیائے خوردنی کے ساتھ ساتھ ضرورت کی دیگر چیزیں بھی بکنے لگیں،پھر چرب زبان بازاری حکیم جو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے،طرح طرح کی خود ساختہ کہانیاں سنانے اور سانپ، نیولہ کی لڑائی سمیت کئی کرتب اور تماشے دکھانے کے بہانے اپنی بنائی ہوئی دوا بیچنے کے فن کے ماہر تھے۔ ان سے بھی رونق دو بالا ہوئی اور اس میدان کا نام ہی ”بدھ کا میدان“ پڑ گیا، اسی میدان میں اکثر بڑی کمپنیاں خصوصا چائے کی کمپنیاں اپنی اشتہاری فلمیں بھی لے کر آجاتیں ”چائے چاہئے؟ کونسی جناب؟“ اور ان کو قابل قبول بنانے کے لئے کچھ فلمی گیت اور مقبول فلموں کے ”ٹوٹے“ (فو ٹیج) بھی چلاتے، اسی طرح سال کے سال ایک بزرگ ’اخوندالدین بابا ؒ“ کے مزار پر ایک میلہ لگتا اور جس کا ہمیں سارا سال انتظار رہتا کہ اس کی وجہ سے اس خاموش علاقہ میں جیسے ایک ہنگامہ سا اتر آتا، تکے کباب،جلیبی مٹھائی اور حلوہ پوری کی دکانیں سج جاتیں اسی طرح سڑک کنارے جامعہ اسلامیہ ایک اور بزرگ سید مہربان شاہ کا عرس منانے کا اہتمام کرتا جس میں گاؤں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کے سینکڑوں عقیدت مند اور مریددور دور سے شریک ہوا کرتے خصوصا ًپشاور سے تو ایک بہت بڑی تعداد میں ان کے مرید شریک ہوتے اور پشاور ہی سے آنے والے کچھ دکاندار عرس کے دنوں میں طرح طرح کے پکوانوں کی دکانیں لگا لیتے جن پر ہمہ وقت ایک بھیڑ لگی رہتی کیونکہ پشاور کے پکوان کا تو ذائقہ ہی الگ ہوتا تھا۔ ایسا ہی سالانہ اجتماع دارالعلوم حقانیہ کا بھی ہوا کرتا دکانیں تو اس میں بھی لگتیں دوسرے شہروں اور علاقوں سے آنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس اجتماع میں بھی شریک ہو تی مگر اس کا حوالہ علمی اور فکری تھا چنانچہ اس میں باہر سے بڑے بڑے علما اس میں شریک ہوتے میں نے علمائے دیوبند کو بھی وہاں دیکھا اور سنا ہے، ایک ”طرحی پشتومشاعرہ“ بھی ہوتا، میں نے اپنے زندگی کا پہلا مشاعر ہ (پشتو) وہیں پڑھا جب میں نویں کلاس کا طالب علم تھا، مگر شہروں کی طرح گاؤں بھی ان تہذیبی روایات سے انگلی چھڑا بیٹھے اور جس بدھ کے میدان میں ہفت روزہ منڈی کے علاوہ کئی رونقیں ہوا کرتیں اس میدان میں اب پلازوں اور بڑی بڑی دکانوں سے ایک فٹ جگہ بھی باقی نہیں بچی، اب نہ بزرگوں کے مزاروں پر وہ عرس اور میلے لگتے ہیں اور کیسے کہاں لگیں کہ ان میلوں کی جگہ نئے مکانات اور بھانت بھانت کے خرید و فروخت کے مراکز قائم ہو گئے ہیں، اور دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ان رونقوں کا کوئی نوحہ خواں بھی نہیں ہے، اب تو خیر قصبات میں اور شہروں میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد کم بہت کم رہ گئی ہے جنہوں نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں یہ میلے دیکھے تھے اور کچھ دنوں تک تو ان رونقوں کے سارے گواہ بچھڑ جائیں گے، کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ کبھی اس کے شہر کی ساری تہذیبی زندگی کی اسا س ایسے ہی عوامی میلے ٹھیلے تھے، اور وہ جو محمد رفیع نے فلم میلہ کے لئے شکیل بدایونی کا معروف و مقبول گیت گایا ہے نا، ”یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے“ تو اس وقت نہ شکیل بدایونی اور نہ ہی محمد رفیع کو یہ اندازہ ہو گا کہ ایک وقت آئے گا کہ ہم توخیر نہیں ہوں گے مگر یہ میلے بھی اپنی بساط لپیٹ لیں گے،یا پھر ایک نئے روپ میں سامنے آ جائیں گے، کیونکہ اب ہم ان میلوں ٹھیلوں کے دور سے تو نکل آئے مگرغنیمت ہے کہ ہم نے ”میلہ“ کو اب رگ ِ جاں سے باندھ رکھا ہے اور یہ میلہ اب نیشنل بک فاؤنڈیشن کا کتاب میلہ ہو یا مختلف تنظیموں اور آرٹس کونسلوں کے ادبی میلے ان کی رونق ابھی باقی ہے اور اب کے تو جاتی سردیوں کے یہ نرم اور گداز دھوپ کے مہربان دن اپنے جلو میں بہت سے ادبی میلے لے کر آئے ہیں، کراچی آرٹس کونسل میں یوں تو سارا سال ادبی ہنگامے بپا رہتے ہیں لیکن ان کے سالانہ ادبی میلہ کی اپنی الگ ایک پہچان ہے جس میں دنیا بھر سے اہل قلم شریک ہوتے ہیں اور چند دن خوب رونق میلہ لگا رہتا ہے، لیکن اب کے وہ میلہ اٹھا کر لاہور لے آئے ہیں، یہاں بھی خوب پزیرائی ہوئی اب لاہور میں معروف فیض میلہ شروع ہے اور اس میں بھی باہر سے ادبی زعما آ رہے ہیں، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انڈیا سے معروف ترقی پسند شاعر جاں نثار کے بیٹے اور معروف ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی کے داماد معروف و مقبول شاعرجاوید اخترسب سے پہلے پہنچ گئے ہیں، مختلف شہروں میں یہ ادبی میلے ہو رہے ہیں، پشاور میں اس طرح کے بڑے میلے کم ہی ہوتے ہیں لیکن خوش آئند بات یہی ہے کہ اب کچھ دن پہلے ایک بہت ہی بھرپور ادبی میلہ ”پشاور لٹریری فیسٹیول“ پنج ستاری ہوٹل میں ہوا جس میں یادگار اور شاندار نشستیں ہوئیں دوسرے شہروں کے زعما بھی آئے اور ابھی اس میلہ کی بازگشت جاری ہی ہے کہ دوست عزیز اسلم میر کے مطابق پشاور یونیورسٹی کے شعر و ادب سے جڑے ہوئے کچھ دوست 21 سے 25 فروری ایک اور پانچ روزہ دوستی ا دبی میلہ کا اہتمام کر رہے ہیں،کل کے روایتی اور تہذیبی میلے نہ سہی ادبی میلے تو بحال ہیں، میلہ کا لفظ تو زندہ رہے گا ویسے بھی سیا سی محاذ پر دھند بلکہ ”سموگ“ کی وجہ سے اب یار لوگ جگر مراد آبادی کے ہم زبان ہو کر یہ کہتے ہوئے کار ِ ادب کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں ہو رہے ہیں کہ
ان کا جو فرض ہے وہ ا ہل سیا ست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے