افغانستان میں قیام امن سے متعلق روس کے صدر کا حالیہ بیان لائق توجہ ہے جس میں اُنہوں نے یوکرین سمیت علاقے میں دیگر تنازعات کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ دیگر تنازعات کے باوجود افغانستان کی صورتحال معمول پر لانے کی اہمیت و ضرورت کم نہیں ہوتی۔ انہوں نے امریکہ کا نام لئے بغیر کہا کہ ”ہمیں افغانستان کو استعمال کرنے اور وہاں کی صورتحال کی خرابی کے ذمہ داروں‘ نیز بنیادی سہولیات کی فراہمی کے نظام کی تعمیر نو کے درپردہ کوششوں پر بھی تشویش ہے۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے دہشت گردی کی تخلیق کر رہے ہیں اور وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں جس سے انسداد دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کامیابی کی صورت ظاہر ہو۔ افغانستان کی صورت حال پر اثر انداز ہونے کے لئے امریکہ اور مغربی دنیا کی قیادت میں بظاہر جاری اس طرح کی کوششوں کے بارے میں یہ ایک واضح اور درست انتباہ ہے۔ آج کے افغانستان میں اُن سبھی عناصر کی تلاش اور اُن کی سازشوں کو عیاں ہونا چاہئے جو افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔ جو افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور افغان تنازعہ کو بھڑکانے میں مصروف ہیں جس کے شعلوں کی وجہ سے گزشتہ چار دہائیوں سے خطے پر آگ و راکھ طاری ہے! اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس طرح کی کوششیں وقت کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں لیکن کیا ایسا ہے کہ پاکستان افغانستان سے متعلق کسی عالمی تنازعے میں ایک بار پھر شراکت دار اور معاون بن جائے گا؟ ہر ملک کا حق ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کو اپنے مفاد کے زاویئے سے دیکھے اور اپنے قومی مفاد کے لئے درست انتخاب کرے۔ پاکستان نے افغانستان سے متعلق ماضی میں جو غلطیاں کیں‘ اُنہیں دہرانے سے گریز ہی قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنا سکتا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں عالمی طاقتیں پاکستان کو روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے یا اپنے تعلقات بہتر بنانے سے روکے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت روس اور چین نے امریکہ کے مقابلے میں عالمی توازن کا جو ماحول بنایا ہے اس میں دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کا کردار اہم ہے اور خاص طو رپر جب بات ہو افغانستان کی تو اس میں پاکستان کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ پاکستان براہ راست نہ صرف افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد کے ذریعے جڑا ہو اہے بلکہ افغانستان کے حالات سے براہ راست متاثر بھی ہورہا ہے۔ اس لئے اگر اس وقت ایک بار پھر افغانستان میں امن کے حوالے سے کوئی منصوبہ بن رہا ہے اور اس میں علاقائی ممالک کا کردار اہم ہے تو امریکہ کے درپردہ کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس نے ماضی میں بھی افغانستان میں امن کے حوالے سے کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے اور اب بھی اس طرح کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔اس ضمن میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ افغانستان کے حوالے سے جو بھی فیصلہ ہو وہ امریکہ کے زیر اثر نہیں بلکہ علاقائی طاقتوں کے تعاون سے ہو۔