تلخ حقیقت 

 وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل آئی ایم ایف کے پاس نہیں ہے۔ہمیں اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔پاکستانی قوم پر یہ اُفتاد گذشتہ چند مہینوں کے اندر پڑی ہے۔ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے سولہ ارب ڈالر سے گھٹ کر محض ڈھائی ارب رہ گئے تھے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی رقومات وطن بھیجنے میں واضح کمی کردی۔کمرشل بینکوں کو ڈالر جاری کرنے سے روک دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کراچی کی بندرگاہ پر ہزاروں کی تعداد میں مال بردار کنٹینر کھڑے ہیں۔ان کو ادائیگی کرکے مال وا گذار کرنے کے لئے درآمدکنندگان کے پاس ڈالر نہیں ہیں۔وزیر دفاع کے اس موقف کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتاکہ ہمارے مسائل کا حل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، پیرس کلب اور ایشیائی بینک سمیت کسی کے پاس بھی نہیں۔اور نہ ہی بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس سلسلے میں کچھ زیادہ کر سکتے ہیں۔ یہ ہماری اپنی غلطی ہے کہ قرضوں کی اقساط اور سود ادا کرنے کے لئے ان اداروں سے قرضے لیتے رہے اور قرضہ ملنے پر  خوش بھی ہوتے رہے۔ان قرضوں کو اگر قومی تعمیر کے لئے استعمال کیا جاتا۔تو ہم آج قرضہ دینے والوں کی صف میں کھڑے ہوتے۔ قدرت نے اس ملک کو کیا کچھ نہیں دیا۔ ہمارے پاس  وافر آبی ذخائر ہیں لیکن ڈیم بنا کر اپنی بنجر زمینوں کو آباد کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے  کے حوالے سے ہم نے ہمیشہ سستی دکھائی  ہے۔ پانی سے بجلی کی پیداوار میں اضافے کی بجائے تھرمل پراجیکٹس اور کرائے کے بجلی گھر خریدے گئے۔ ان کو چلانے کے لئے ہمارے پاس تیل نہیں ہے جس کی وجہ سے اکثر تھرمل پاور سٹیشن بند پڑے ہیں اور عوام کو روزانہ بارہ سے سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ہمسایہ ملک ایران اور وسطی ایشیائی اسلامی ملکوں کے پاس بجلی، گیس اور تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں وہ ہمیں سستے داموں دینے کے لئے بھی تیار ہیں مگر  کیوں ہم ان سستے وسائل سے استفادہ نہیں کر پا رہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرنے اور مہنگائی کا طوفان اٹھانے کے باوجود ہم کنگال ہونے سے نہیں بچ سکتے تو پھر ناپسندیدہ شرائط پر قرضہ لینے اور اپنے عوام کو مہنگائی  کا شکار کرنے کیآخر ضرورت ہی کیا تھی۔اب وقت آگیا ہے کہ ملکی وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی جائے اور اس ضمن میں حزب اختلاف اور حکومت مل کر ایک میثاق معیشت پر اتفاق کرلیں تاکہ ملک کو اس مشکل صورتحا ل سے نکالا جاسکے۔