چھوٹی زبانیں بے سہارا کیوں؟ 

ایک مختصر سی خبر نگاہوں سے گذری تو پوری تصویرہی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی خبر کے مطابق چترالی زبان کو اس کاجائز مقام نہ دینے کے خلاف آج پشاورپریس کلب کے سامنے احتجاج کیاجائے گا گویا وطن عزیز میں آج بھی چھوٹی زبانیں بولنے والے اپنی ماں بولیوں کے مستقبل کے حوالہ سے تشویش کاشکارہیں آج پھر اکیس فروری ہے مگر ہمیں کوئی فکر ہے نہ کوئی پرواہ بلکہ ہمیں تویہ بھی پتہ نہیں کہ آج کے دن کو عالمی یوم زبان کے لئے کیوں چنا گیاتھا اس حوالہ سے کم سے کم نئی نسل کو تو آگہی ہونی چاہئے تاکہ پھر مستقبل میں اس قسم کی غلطیوں سے بچا جاسکے جس کی وجہ سے پورا ملک ہی دولخت ہوگیا تھا آج بہت کم لوگ یہ جانتے ہونگے کے سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کی بنیاد اس روز ڈالی گئی تھی جب ہمارے نااہل حکمرانوں نے محض بنگالی زبان کو اس کاحق دینے کامطالبہ کرنے والوں پر گولیا ں برسا دی تھیں بنگالی مسلمانوں نے بھی ہمارے ساتھ مل کر آزادی کی جنگ لڑی اور ہم سے بہتر اور کامیاب انداز میں لڑی مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے بنگالی باشندوں کا دل جیتنے کی کوشش کرنے کی بجائے ان کو ”غلام“ بنا کر رکھنے کی روش اختیار کی اس میں ساری ذمہ داری مغربی پاکستان پر ہی عائد نہیں ہوتی اس وقت کی بنگالی لیڈر شپ بھی ذمہ دار ہے ملک کے دوسرے گورنر جنرل اور بعدازاں دوسرے اور تیسرے وزیراعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے بھی تھا مگر وہ صورتحال کی سنگینی اور مستقبل کے خطرات کا اندازہ ہی نہ کر سکے حسین شہید سہروردی کو انہوں نے روز اول سے معتوب قرار دے رکھا تھا چنانچہ پھر نوبت21 فروری 1952ء تک پہنچ گئی تب ایک بنگالی وزیراعظم تھا اس روز ڈھاکہ میں بنگالی زبان کے حق میں نکالے جانے والے جلوس پر گولیاں برسائی گئیں اور ایک طالب علم موقع پر مارا گیا جس کے بعد اس کی یاد میں مینار تعمیر کیا گیا اور یہی شہید مینار بعدازاں بنگالی قوم پرست سیاست کا اہم مرکز و عنصر بن گیا یہی نہیں 21فروری کے دن کو اقوام متحدہ نے مادری زبانوں کا عالمی دن بھی قرار دے دیا جو آج تک منایا جاتا ہے۔1954ء کے صوبائی انتخابات میں بنگالی قوم پرست اتحاد جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ کی سیاست کا جنازہ تو نکال دیا مگر اتحاد کے رہنما پھر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئے دوسال کے مختصر عرصہ میں 6 سے زائد حکومتیں تبدیل ہوئیں اور آخر کار اسمبلی میں ہنگامہ آرائی سے ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی شاہد علی کرسی لگنے سے جاں بحق ہوگئے اور پھر جنرل ایوب کو کھل کر آنے کا موقع مل گیا ایوب خان نے10 سالہ دور اقتدار میں حقیقی بنگالی قیادت کو پنپنے نہیں دیا اگرچہ اس نے اسلام آباد کی محرومی کا ازالہ کرنے کیلئے ڈھاکہ کے قریب ایوب نگر کی تعمیر شروع کرادی تھی مگر عملاً اقتصادی و سیاسی میدان میں مشرقی پاکستان کو پیچھے رکھا گیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ 1969ء کی گول میز کانفرنس کے موقع پر ایوب خان نے ولی خان کو کہہ دیا کہ اگر پاکستان کا استحکام چاہتے ہو تو بنگال کا بوجھ کاندھوں سے اتار پھینکنا ہوگا ایوب کے دور میں ہی6نکات پرورش پائے اور شیخ مجیب الرحمان لیڈر بن کر سامنے آیا‘ یحییٰ خان نے اپنے طور پر ازالے کی کوشش کی‘ ون یونٹ ختم کرکے نہ صرف مشرقی پاکستان کا گلہ دور کیا بلکہ مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی شکایت کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی بدقسمتی سے دنیا بھر کے جمہوری اصول کیمطابق جیتنے والوں کو اقتدار منتقل نہ کیا جا سکا فیصلے اور طاقت کا محور یحییٰ خان‘ مجیب اور بھٹو بن گئے یحییٰ دونوں کو لڑوا کر تماشہ دیکھتا رہا‘ مجیب ہر صورت حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے جو کہ اس کا حق بھی تھا بھٹو نے فیصلہ کرلیا کہ وہ کسی بھی صورت اپوزیشن میں نہیں بیٹھے گا دو وزرائے اعظم کی تجویز پیش کی پھر”ادھر تم‘ ادھر“ہم کانعرہ لگایا اور آخرمیں ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہاں جانے والے واپسی کا ٹکٹ نہ لیں اب اقتدار کے حصول کیلئے میوزیکل چیئر کا گیم شروع ہوگیا‘ پھر مارچ 1971ء میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کرکے بہتری کی آخری امید بھی ختم کردی گئی اور یہیں سے رویوں میں شدت آگئی بدقسمتی سے دسمبر1970ء سے دسمبر 1971ء تک لاکھوں بے گناہ پاکستانیوں کا خون ایک دوسرے نے ہی بہایا‘ بھارت کو تو تیار میدان مل گیا تھا اور آخر کار16دسمبر کو جو کچھ ہوا اس نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنوں کو جدا کر دیالیکن اس کی بنیاد 21فروری 1952ء کو رکھی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات، صوبہ خیبرپختونخوا، بلوچستان، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی 27چھوٹی مادری زبانوں کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے ان میں سے 7 زبانیں غیر محفوظ گردانی جاتی ہیں جن کو بولنے والے 87 ہزار سے 5 لاکھ تک ہیں اس کے علاوہ 14 زبانوں کو خاتمے کا یقینی خطرہ لاحق ہے جن کو بولنے والوں کی تعداد کم سے کم 500 اور زیادہ سے زیادہ 67 ہزار ہے جبکہ 6زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے 200 سے 5500 کے درمیان ہیں یہ زبانیں ختم ہونے کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔ مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے زبانوں پرتحقیق کرنے والے ایک ادارے کے مطابق ملک میں اس وقت 74زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے کئی ایک اس وقت معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں بنگالی زبان کو اس کاجائز مقام نہ دے کرہم ناقابل تلافی نقصان اٹھاچکے ہیں اب تو پالیسی سازوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں یہ بجاکہ ہر زبان کو قومی زبان یاپھرصوبہ کی سرکاری زبان کادرجہ تو نہیں دیا جاسکتامگر کم سے کم ان کاجائز مقام تو دیا جاسکتاہے آج بھی اگر چھوٹی زبانیں بولنے والے اپنی اپنی زبانوں کے تحفظ کے حوالے سے پریشان ہیں تو پھرسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اورکیا پھر کسی سانحہ کاانتظار کررہے ہیں؟