خوش خبری یہ ہے کہ ایک سال کے دوران پاکستان کا بیرونی قرض 4.7 ارب ڈالر کم ہوا ہے جس کا مجموعی حجم 97.5 ارب ڈالر ہے لیکن قرض کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیرملکی کمرشل مالیاتی اداروں نے پاکستان کی جانب سے قرض کی درخواستوں پر فیصلہ ’آئی ایم ایف پروگرام‘ کی بحالی سے مشروط کر رکھا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ”گزشتہ کیلنڈر سال میں ڈالر کے لحاظ سے بیرونی سرکاری قرضوں میں کمی کے باوجود حکومت کا بیرونی قرضہ 14.8 کھرب روپے سے بڑھ کر 17.9 کھرب روپے ہو چکا ہے۔ قرضوں میں اِس اضافے کی ایک وجہ روپے کی قدر میں کمی بھی ہے۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان پر 3.1 کھرب روپے قرض کا اضافہ ہوا ہے یعنی اب اِسے 3.1 کھرب روپے جو کہ اِس نے بطور قرض نہیں لئے لیکن روپے کی قدر میں کمی کے باعث اضافی ادا کرنا پڑیں گے۔ مرکزی بینک نے یہ اعداد و شمار ایک اس وقت میں جاری کئے گئے ہیں جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار متحدہ عرب امارات (خلیجی ملک) سے دوطرفہ قرضوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے بات چیت کر رہے ہیں اور اِس بات چیت میں کچھ اداروں کی نج کاری کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات‘ چین اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بورڈ اجلاس میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر قرض کی قسط کی منظوری سے متعلق ٹھوس وعدے اہم ترین پیشرفت ہے‘ جس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے پاکستان اپنے دوست ممالک سے رجوع کر رہا ہے تاکہ معاشی بحالی کے عمل کو غیرملکی سرمایہ کاری سے تیزرفتار بنایا جا سکے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے باوجود حکومت کو فی ڈالر مزید اٹھائیس روپے درکار تھے‘ جو اسے کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے بین الاقوامی قرض دہندگان کو واپس کرنا پڑے۔ دسمبر 2022ء کے اختتام پر روپے اور ڈالر کی برابری دوسوستائیس روپے کے قریب تھی جو ڈیڑھ ماہ کے دوران مزید خراب ہوئی۔ توجہ طلب یہ امر بھی ہے کہ پاکستان کے ذمے واجب الادا بیرونی قرضوں کی مالیت میں کمی ملکی آمدنی میں اضافے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ رقم مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر میں سے ادا کی گئی ہے جو گزشتہ کیلنڈر سال میں 12.1 ارب ڈالر یا 68فیصد کم ہوئے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق غیرملکی تجارتی قرضے جو ایک سال قبل دس ارب ڈالر تھے وہ کم ہو کر قریب سات ارب ڈالر رہ گئے۔ ملک کے مجموعی واجبات‘ خاص طور پر سرکاری قرضوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں بارہ کھرب روپے یا تیئس فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور مرکزی بینک کے تازہ ترین ’ڈیٹ بلیٹن‘ میں دیئے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی کوئی ایک بھی سیاسی جماعت کے پاس بڑھتے ہوئے قومی قرضوں (مسئلے) کا حل موجود نہیں ہے۔ یہ بڑھتے ہوئے قرض اور ادائیگی ایسی صورت میں مزید قرضوں پر انحصار کی طرف لیجاتے ہیں کیونکہ وسائل کی کمی کے باعث پاکستان کی تقدیر بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے جو من مانی شرائط پر بھیک کی صورت قرض دے رہے ہیں۔ مرکزی بینک نے معیشت کے حجم کے لحاظ سے پاکستان کے کل قرضوں اور واجبات کے تناسب کا اگرچہ ذکر نہیں کیا لیکن صورتحال زیادہ مثالی نہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران صرف سرکاری قرضوں میں دس کھرب کا غیرمعمولی اضافہ اِس بات کی دلیل ہے کہ قومی پیداوار اور ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کم ہے۔ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں قومی قرضوں کو ختم کرنے یا اِن میکں مزید اضافے سے متعلق معنی خیز اصلاحات یا لائحہ عمل تشکیل دینے کی طرف توجہ دیں تو اس مسئلے کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض کے علاوہ بھی اگر بیرونی قرضہ ایک سال میں بڑھ کر سترہ کھرب روپے تک جا پہنچا ہے تو قرض کا مرض علاج چاہتا ہے کیونکہ اِس کے باعث روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ اُس انتہا تک پہنچ گیا ہے جہاں اِس سے معمولات زندگی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔