واٹس ایپ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اشتراک کے ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے جو آنکھوں کے مریضوں کے علاج میں مددگار ثابت ہوگی۔
ماہرین نے واٹس ایپ اور آرٹیفیشنل انٹیلیجنس کے اشتراک سے ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے جو اب آنکھوں کے مریضوں کے علاج میں معاون ثابت ہوگی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں یوپی کے دارالحکومت لکھنو میں منعقدہ جی 20 میٹنگ میں نمائش ہوئی جس میں واٹس ایپ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اشتراک سے بنائی گئی اس نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا گیا ہے۔ جس کو شرکا نے بے حد سراہا اور اسے طب کی دنیا میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
اس موقع پر اس اسٹارٹ اپ کے شریک بانی پریا رنجن گھوش نے بتایا کہ ان کی یہ نئی ٹیکنالوجی صرف چند لمحوں میں کسی بھی انسان کی آنکھوں کی تصویر دیکھ کر بتا سکتی ہے کہ اس کو موتیا بند کی بیماری ہے یا نہیں جس کے بعد اس کے لیے علاج کرانا آسان ہوگا۔
گھوش کا کہنا تھا کہ ان کی یہ ٹیکنالوجی بالخصوص ان دیہی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے انتہائی کارآمد ہے جہاں علاج کی سہولتیں نہیں ہیں اور آنکھوں کے امراض کا شکار افراد کی بیماری بروقت ڈاکٹر کے مشورے اور علاج نہ ہونے کے باعث بڑھتی جاتی ہے۔
اب کوئی بھی ہیلتھ ورکر واٹس ایپ کے ذریعے ان مریضوں کی آنکھوں کے امراض کا آسانی سے پتہ لگا سکتا ہے۔ اس فیچر کے ذریعے مریض کی آنکھ کی تصویر لیتے ہی پتہ چل جائے گا کہ اس کو موتیا بند ہے یا نہیں؟ اس نتیجے پر وہ مریض ڈاکٹر کے پاس جاکر مشورہ یا علاج کرا سکتا ہے۔
رنجن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ایپلیکیشن کو 2021 میں بنایا گیا تھا اور اب یہ ودیشیا میں کام کر رہا ہے اب تک اس سے 1100 لوگوں کی اسکریننگ کی جا چکی ہے۔
(AI) کی ڈائریکٹر نویدیتا تیواری نے بتایا کہ اس ایپلی کیشن کو واٹس ایپ کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے، کیونکہ واٹس ایپ اب تقریباً ہر کسی کے پاس ہوتا ہے۔ واٹس ایپ میں ایک نمبر بنایا گیا ہے جسے کانٹیکٹ کہتے ہیں اس کانٹیکٹ میں ہم نے اپنی ٹیکنالوجی کو مربوط کیا ہے جسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کیٹریکٹ اسکریننگ سلوشن کہا جاتا ہے۔ اسے واٹس ایپ میں شامل کرکے ہم اپنے صارفین کو کنٹیکٹ بھیجتے ہیں۔
یہ کنٹیکٹ موصول ہوتے ہی مریض سے بنیادی معلومات طلب کی جاتی ہیں۔ واٹس ایپ بوٹ کے ذریعے نام، جنس اور دیگر ضروری معلومات لی جاتی ہیں جس کے بعد آنکھوں کی تصویر لی جاتی ہے۔ مریض اپنی تصویر بوٹ میں بھیجتا ہے۔ تصویر موصول ہوتے ہی بوٹ اسی وقت بتاتا ہے کہ مریض کو موتیا بند کی بیماری ہے یا نہیں اس کے بعد وہ شخص کسی بھی متعلقہ ڈاکٹر سے دوا یا سرجری کرا سکتا ہے۔
یہ سارا عمل آٹومیٹک اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ٹینکالوجی کی بنیاد پر ہے۔ ہم نے لگ بھگ 100 مریضوں پر اس کا ٹرائل کیا اور 91 فیصد نتیجہ درست ملا۔ جس کے بعد مدھیہ پردیش کے ودیشا میں 50 افراد کو اس کی تربیت کی گئی۔
سینیئر آئی سرجن ڈاکٹر سنجے کمار وشنوئی نے اسے ایک مفید ایپلیکیشن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سہولت خاص طور پر دور دراز علاقوں کے لیے بہتر ثابت ہو رہی ہے یہ ایک ڈیٹا بیس ہے جو ان دور دراز علاقوں کے لیے بہت موثر ہے جہاں طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔