قیمتی دھات سونے (گولڈ) کی فی تولہ قیمت جو 2 لاکھ روپے کی حد عبور کر گئی تھی کچھ کمی کے ساتھ ’ایک لاکھ پچانوے ہزار سات روپے‘ فی تولہ ہو چکی ہے تاہم سونے کی قیمت میں اِس اُتارچڑھاؤ کا اگر گزشتہ پچاس دنوں کے دوران جائزہ لیا جائے تو فی تولہ (11.66 گرام) قیمت میں چالیس ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔ ماہئ جنوری کے اختتام پر سونا 2 لاکھ 10 ہزار روپے فی تولہ کی نفسیاتی حد عبور کر گیا تھا جبکہ اِس میں ساڑھے چودہ ہزار روپے فی تولہ کمی کے باوجود اِس قیمتی دھات کی مانگ اپنی جگہ برقرار ہے اور اِس کی بنیادی وجہ اِس غیردستاویزی کاروبار (لین دین) میں سرمایہ کاری (سٹے بازی) کا رجحان ہے اور چونکہ معیشت کے دیگر شعبے زیادہ سے زیادہ دستاویزی ہو چکے ہیں اِس لئے ٹیکس چوری و دیگر ذرائع سے جمع کئے گئے ’کالے دھن‘ کو محفوظ رکھنے کے لئے سونے سے بہتر کوئی دوسرا دھندا نہیں جس میں سرمایہ کاری کرنے والے بذریعہ ٹیلی فون خریداری اور فروخت جیسی باسہولت خدمات سے بھی استفادہ کر رہے ہیں جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر منحصر اِس کاروباری سہولت کے بارے میں ٹیکس وصولی کے ادارے (ایف بی آر) کو موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2022ء کے دوران پاکستان میں سونا سب سے زیادہ پسندیدہ اثاثہ بن گیا تھا کیونکہ اِس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو 41 فیصد کے تناسب سے منافع مل رہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ مذکورہ عرصے میں گولڈ سرمایہ کاری کا عروج دیکھا گیا۔ وقتی سرمایہ کاری کے رجحانات خاصے دلچسپ ہیں۔ سونے (گولڈ) سے قبل امریکی ڈالر میں سرمایہ کاری کی جاتی تھی لیکن ڈالر کے ناپید ہونے کے بعد سرمایہ کاروں نے کرنسی مارکیٹ سے سونے کی مارکیٹ کا رخ کیا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں سرمائے کی کوئی کمی نہیں لیکن حسب سرمایہ نہ تو ٹیکس دیا جاتا ہے اور نہ ہی اِس بات کو پسند کیا جاتا ہے کہ کاروبار دستاویزی (باقاعدہ) شکل میں ہو۔ روایتی طریقوں سے ڈالروں اور سونے کی خریداری کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان میں سونے (گولڈ) کی قیمت میں کمی کا براہ راست تعلق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے قرض بحالی پر آمادگی کے اظہار سے ہے اور اگرچہ ڈالروں کی نسبت سونا (گولڈ) زیادہ آسانی کے ساتھ دستیاب ہے لیکن سرمایہ کاروں کی نظریں ڈالروں ہی پر مرکوز ہیں جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ 300 روپے کے آس پاس جائے گا۔ اگر قرض مل جاتا ہے‘ جس کا ملنا یقینی ہے تو ڈالر کی قدر مزید کم ہوگی جس سے سونے کی قیمت 1 لاکھ 75 روپے فی تولہ کے آس پاس ہوگا جبکہ اِس کی اوسط موجودہ قیمت 1 لاکھ 96 ہزار روپے فی تولہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں سونے کی خریداری میں سرمایہ کاری کوئی بھی نہیں کرنا چاہے گا کیونکہ فی تولہ پندرہ سے بیس ہزار روپے فی تولہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں 4.2 فیصد یا (تقریبا گیارہ روپے) کی بہتری آئی ہے اور فی ڈالر 264 کی قدر سے روپے پر دباؤ میں کمی تو آئی ہے لیکن یہ قرض سے مشروط کمی ہے اور جیسے ہی ڈالروں کا یہ انبار بھی ختم ہو گا اور پاکستان کو مزید قرض کے لئے ’آئی ایم ایف‘ و دیگر سے رجوع کرنا پڑے گا تو ڈالر کی پرواز اِسے ایک ہی جست میں 300 روپے کے آس پاس تک لے جائے گی اور ایسے کسی موقع کے لئے سرمایہ کار تاک لگائے بیٹھے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کے قلیل سے درمیانی مدت نرخوں میں ردوبدل کا نقطہ نظر بھی پاکستان میں منفی رہا ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی ڈالر میں سونے کی قیمت کم ہو رہی ہے جبکہ مقامی قیمتیں قدرے بلند ہیں۔ پشاور کی کرنسی مارکیٹ کے ایک ڈیلر کے بقول نظریں امریکہ کی مقامی مارکیٹ پر بھی لگی ہوئی ہیں جہاں افراط زر اور بے روزگاری کی شرح میں بہتری کے لئے فیڈرل ریزرو اپنی کلیدی پالیسی ریٹ میں اضافہ اور چھ ماہ میں پالیسی ریٹ میں مجبوراً کٹوتی کر سکتا ہے۔ یہ پیش رفت اگر ہوئی تو اِس کا منفی اثر سونے کی چمک (قیمت) پر پڑے گا اور دکھائی یہی دے رہا ہے کہ آئندہ تین سے چار ہفتوں میں سونے کی فی اونس قیمت دس ڈالر سے نیچے چلی جائے گی اور پھر عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں کمی کا رجحان بھی غالب رہے گا۔پاکستان میں سونے کی قیمت کا تعین کیسے کیاجاتا ہے؟ اِس مقصد کے لئے ایک پرائسنگ باڈی (مقامی مارکیٹوں کے لئے) امپورٹڈ اجناس کی قیمت کا حساب لگاتی ہے اور اِس حساب کتاب میں تین چیزوں (پہلوؤں یا عوامل) پر غور کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلا پہلو روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ‘ دوسرا عالمی مارکیٹ میں قیمت اور تیسرا مقامی مارکیٹ میں اس کی رسد اور طلب کی صورتحال جیسے عوامل شامل ہے اور پاکستان کی مارکیٹ کے بارے میں تجزیہ یہ ہے کہ قلیل مدتی سرمایہ کار مستقبل قریب میں سونے کی بجائے ڈالروں کی جانب متوجہ رہیں گے کیونکہ امریکی ڈالر جلد دستیاب ہونے والے ہیں۔ چھوٹے ہوں یا بڑے سرمایہ کار‘ مقامی کرنسی (روپے) کی قدر میں کمی سے بچنے کے لئے امریکی ڈالروں میں سرمایہ کاری سے زیادہ بہتر (فی الوقت) کوئی دوسرا آپشن (موقع) موجود نہیں لیکن ڈالر کب اور کیسے وافر مقدار میں دستیاب ہوں گے‘ یہ ایک مشکل سوال ہے جس کاجواب دینے پر کوئی تیار نہیں۔