’آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے معاشی مشکلات کا جوسارا الزام چین پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ ایک سوچی سمجھی امریکی پالیسی ہے۔ پاک چین تعلقات اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے مخالفین پاکستان کی معاشی بحران کو فائدہ اٹھانے کا ”بہترین موقع“ سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خراب معاشی صورتحال کو ’سی پیک‘ اور چینی سرمایہ کاری سے جوڑنا شروع کر دیا گیا ہے۔ درحقیقت چین مخالف ’آئی ایم ایف‘ کا بیانیہ امریکہ اور بھارت کے جذبات اور قومی پالیسیوں کی عکاس ہے اور یہ دونوں ممالک ’سی پیک‘ اور پاک چین تعلقات کے سخت مخالف ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ امریکہ طویل عرصے سے پاکستان پر ’سی پیک‘ اور ’بیلیٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو (بی آر آئی)‘ سے الگ ہونے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ چین کی اقتصادی ترقی‘ توسیعی منصوبوں اور خطے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھا جا سکے۔ پاکستان کے راستے چین وسط ایشیائی ریاستوں‘ خلیجی ممالک‘ روس اور یورپ تک زمینی و سمندری راستوں سے تجارت کا فروغ چاہتا ہے جبکہ اِس پرامن اور اجتماعی ترقی کی حکمت عملی کو روکنے کے لئے امریکہ جن حربوں کا استعمال کر رہا ہے اُس میں بذریعہ ’آئی ایم ایف‘ مالیاتی دباؤ بھی شامل ہے۔ پاکستان پر امریکہ کے مسلسل دباؤ کا مقابلہ اگرچہ ہر محاذ پر کیا جا رہا ہے لیکن شاید پاکستان زیادہ عرصے اِس دباؤ کو برداشت نہ کر سکے۔ ’فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ’گرے لسٹ‘ میں پاکستان کو رکھنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اِس کی رہی سہی معاشی ترقی اور معاشی ترقی کی گنجائش کو نچوڑا جا سکے۔ اِس مقصد کے لئے پاکستان پر عالمی مالیاتی اداروں بشمول ’آئی ایم ایف‘ کے ذریعے دباؤ بڑھانے میں بھی امریکہ نے درپردہ کلیدی کردار
ادا کیا ہے اور لائق توجہ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ امریکہ چین کی مخالفت اور بالخصوص ’سی پیک‘ کے خلاف مہم چلانے کے لئے کروڑوں ڈالر مختص کئے ہوئے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’کمپیٹس ایکٹ (COMPETES Act)‘ نامی قانون سازی کے ذریعے امریکہ نے ’سی پیک‘ سمیت ’بی آر آئی‘ منصوبوں پر گہری نظر رکھنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے اداروں کے لئے 50 کروڑ (پانچ سو ملین) ڈالر مختص کئے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور اُن کی انتظامیہ کی چین دشمنی ڈھکی چھپی نہیں۔ سال دوہزاربائیس میں مذکورہ قانون کی منظوری کے ذریعے واضح طور پر چین مخالف تعصب کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اِس قانون (کمپیٹس ایکٹ) کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور مینوفیکچرنگ صلاحیت میں سرمایہ کاری کے ذریعے امریکی معیشت کی بحالی کو ظاہراً مقصد بیان کیا گیا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ اِس پوری سرمایہ کاری کے پیچھے چین مخالفت ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ چین مخالف جنون سے دستبردار ہو گی اور کیا امریکہ اپنے وسائل اپنے داخلی معاملات کے حل پر خرچ کرے گا؟ امریکہ کی پشت پناہی سے بھارت بھی ’سی پیک‘ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے اِسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان میں چینی اہلکاروں پر حملوں اور دہشت گرد کاروائیوں میں
بھارت کی مداخلت کے ثبوت ملے جبکہ پاکستان میں امریکی و بھارتی سفارت خانے چین کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلانے کے لئے ذرائع ابلاغ کے وسائل اور اثرورسوخ کا استعمال کر رہے ہیں تو معلوم (اور ثابت) ہوا کہ پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کے دو ہی عوامل ہیں ایک ’آئی ایف آئی‘ اور داخلی سلامتی کو لاحق خطرات۔ پاکستان کو معاشی مشکلات کی دلدل میں دھنسے رہنے کے لئے ’آئی ایم ایف‘ کی صورت امریکہ کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جبکہ داخلی سلامتی و معاشی سرگرمیوں کو دہشت گردی کے ذریعے متاثر کرنے میں بھارت پیش پیش ہے جو افغانستان میں قائم دہشت گرد مراکز کے ذریعے پاکستان دشمن عناصر کی مالی و تکنیکی امداد جس میں ہتھیار اور گولہ بارود بھی شامل ہے فراہم کر رہا ہے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی وجہ سے پاکستان کی معیشت و سلامتی کی صورتحال اور سیاسی و سماجی شعبوں بھاری نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں‘ جن کا تخمینہ ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور اگر پاکستان کے مبینہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے ہوئے نقصانات کا ازالہ کیا جائے تو اِس سے موجودہ 130 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ ستر ہزار سے زیادہ جانی نقصانات اور مسلط دہشت گردی کے منفی نفسیاتی اثرات اپنی جگہ پاکستان کے سماج و معاشی ترقی کو متاثر کئے ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے اتحادی ہونے کے دعویدار ممالک نے کبھی بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا بلکہ ہمیشہ پاکستان سے متعلق سازشی نظریات کو فروغ دیا گیا اور ایک منظم سازش کے تحت قرضوں کے جال میں جکڑ کر‘ اب سی پیک اور معاشی استحکام و ترقیاتی مواقع ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔