موسمیاتی تبدیلیاں اِس انتہا کو پہنچ چکی ہیں کہ اِس کی وجہ سے نقل مکانی بھی ہو رہی ہے جو ایک ناقابل یقین اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ’نقل مکانی‘ کا مطلب ہے کہ اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر قرب و جوار کے کسی علاقے میں پناہ لی جائے اور ایک نئی معیشت و معاشرت کا حصہ بننے کی کوشش کی جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں مزید ایسے پناہ گزینوں کو جنگ کی بجائے آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے (مجبوراً) سفر اختیار کرنا پڑیں گے! اعدادوشمار توجہ طلب ہیں کہ سال دوہزاراٹھارہ سے اب تک دو کروڑ پندرہ لاکھ (21.5) ملین افراد آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات جیسا کہ سیلاب‘ طوفان‘ جنگل کی آگ اور زیادہ درجہ حرارت (ناقابل برداشت گرمی یا سردی) کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔ اگرچہ آب و ہوا میں تبدیلی ہونے والے صدمات کی حد اور شمار ممکن نہیں لیکن زیادہ تر صدمات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں محسوس کئے جا رہے ہیں جبکہ اِن ممالک کی حکومتیں اور عوام دونوں ہی مالی طور پر اِنہیں برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ سال 2020ء میں 6 لاکھ 80 ہزار ماحولیاتی پناہ گزینوں کی تعداد سال 2050ء تک بیس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی جن میں ہر عمر کے افراد بشمول بچے‘ خواتین اور معذور افراد شامل ہوں گے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے زیادہ متاثرہ علاقوں (ہاٹ سپاٹس) میں رہنے والے افراد کو تیزی سے رونما ہونے والی آب و ہوا کی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے زیادہ (غیرمتناسب) خطرات لاحق ہیں۔ پہاڑوں پر پڑی برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور اِن برفانی تودوں (گلیشیئرز) سے آنے والا پانی‘ موسلادھار بارشوں کے ساتھ مل کر جس تیزی سے زرخیز (زیرکاشت) علاقوں کو کاٹ رہا ہے یعنی زرعی نقصانات کا بھی باعث بن رہا ہے اور اِس پانی کے راستے میں آنے والے میدانی علاقوں کے رہنے والے بھی محفوظ نہیں رہے تو یہی وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی کی جاتی ہے کیونکہ جس قدر بھی عقل‘ علم‘ تجربہ اُور اختیار رکھے لیکن وہ قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بنگلہ دیش صنعتی ترقی میں ماحول کو خاطرخواہ اہمیت دینے کو فراموش کر بیٹھا‘ جس کی وجہ سے اُسے شدید خطرات لاحق ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق سال دوہزاراُنیس کے آخر تک بنگلہ دیش میں ایک کروڑ جبکہ سال دوہزارپچاس تک ایک کروڑ نوے لاکھ افراد ’ماحولیاتی پناہ گزین‘ بن جائیں گے اور یہ اعدادوشمار اپنی جگہ تشویشناک ہیں کہ آب و ہوا سے بے گھر (متاثر) ہونے والے تقریبا دو ہزار افراد ہر روز دارالحکومت ڈھاکہ کا رخ کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ کی کچی آبادیوں میں رہنے والے تقریبا ًستر فیصد لوگوں نے کسی نہ کسی موسمیاتی آفت کا سامنا کرنے کے بعد راہ فرار اختیار کی۔ بنگلہ دیش کی طرح ایک اور جنوبی ایشیائی ملک بھی آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ ’مالدیپ‘ بحر ہند میں واقع ہے یہ سمندری سطح کے لحاظ سے دنیا کا سب سے نچلا ملک ہے۔ اِسی وجہ سے مالدیپ کو سمندر میں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح اور مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے ایک ایسا سنگین خطرہ لاحق ہے کہ اگر دنیا نے کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں کمی کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہ کئے تو سمندر کی سطح بڑھتی رہی تو مالدیپ سمندر کے پانی میں ڈوب جائے گا۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق مالدیپ کا 80فیصد سے زیادہ رقبہ سطح سمندر سے ایک میٹر سے بھی کم بلندی پر واقع ہے۔ بڑھتے ہوئے سمندر لاکھوں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دے گا اور اِس لامحالہ ماحولیاتی پناہ گزینوں کی صورت ایک بڑا بحران پیدا ہوگا جو دستک دے رہا ہے اگرچہ موسمیاتی پناہ گزینوں کے علاوہ بھی جنوبی ایشیا کا خطہ انسانی بحرانوں سے دوچار ہے اور اِن بحرانوں کی شدت اور وقوع پذیر ہونے کے عوامل میں چار گنا اضافے کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے لیکن ایک اور خطہ جس کا یہی حشر ہو رہا ہے وہ افریقہ ہے۔ شدید موسمی درجہ حرارت اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے براعظم افریقہ کو روزانہ کی بنیاد پر ریکارڈ توڑ خشک سالی کا سامنا ہے اور اِس خشک سالی (غذائی عدم تحفظ) کی وجہ سے کئی ممالک خانہ جنگی کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ دیگر میں تنازعات موجود ہیں۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ’بوکو حرام‘ نامی ایک عسکریت پسند تنظیم اور نائجیریا کی ریاست کے درمیان جاری پرتشدد تنازعے کی وجہ سے سال دوہزارنو سے زیرکاشت رقبے میں کمی کی وجہ سے زرعی پیداوار مقدار کے لحاظ سے متاثر ہوئی ہے اور اِس سے ایک بڑا انسانی بحران پیدا ہوا ہے جیسا کہ دائمی خشک سالی اور زرعی پیداوار کے نقصانات کے ساتھ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے صومالیہ کے باشندے خلیج عدن کے خطے میں قزاقی‘ پر اُتر آئے ہیں اور وہ بحری جہازوں کو لوٹ لیتے ہیں اور اُن کے عملے کو یرغمال بنا کر بھاری تاوان طلب کرتے ہیں۔ اِس صورتحال میں صومالیہ کی کبھی پھلتی پھولتی غیر قانونی ماہی گیری کی صنعت کا مستقبل بھی تاریک نظر آ رہا ہے۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ گزشتہ پچاس برس میں‘ دنیا نے زیرسمندر پائی جانے والی مرجان (قیمتی پتھر) کی چٹانوں کو کھو دیا ہے۔ یہ چٹانیں اِس لئے اہم ہوتی ہیں کیونکہ اِس پر ماہی گیری کی تقریبا تیس فیصد صنعت آمدنی کے لئے انحصار کرتی ہے۔ مچھلیوں کی تعداد میں کمی کے ساتھ‘ صومالیہ کو لازمی طور پر اپنی ماہی گیری کی صنعت کو ایک بڑے دھچکے کا سامنا ہے‘ جو اب مقامی لوگوں کو قزاقی کی طرف جانے پر مجبور کر رہا ہے۔ قزاقی (سمندر میں لوٹ مار) کے عام ہوتے واقعات اور ماہی گیری میں کمی کے ساتھ‘ صومالیہ ایک بڑے انسانی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہونے میں تیزی اور اِن واقعات میں اضافہ کی وجہ سے ”آب و ہوا کے باعث پناہ گزینوں“ کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کو درپیش موسمیاتی ہنگامی صورتحال کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ موجودہ وقت کا سب سے بڑا اور سب سے اہم بحران ہے جس کی وجہ سے کوئی ایک بھی ملک محفوظ نہیں اور ہر ملک بلکہ قریہ قریہ متاثر ہے۔ جن ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی ہو رہی ہے وہاں موسموں سے نسبتاً محفوظ لوگ بھی بنیادی سہولیات جیسے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے متاثر ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں متقاضی ہیں کہ حکومتی سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی میں سیاسی علم و دانش کی بجائے ماہرین کی آرأ کو شامل کیا جائے تاکہ ایک ایسے بڑے خطرے سے بچنے کی راہ نکالی جا سکے جو ظہورپذیر ہو چکا ہے۔ مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے غذائی تحفظ ضروری ہے۔ موسموں کا مقابلہ کرنے والے بیج‘ کھاد اور ادویات کے علاوہ قابل کاشت زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لئے استعمال پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو یہ آج (حال) میں نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے (مستقبل میں) سرمایہ کاری ہو گی۔ پاکستان ایک سے زیادہ مرتبہ تباہ کن سیلابوں اور زرعی پیداوار میں کمی کی صورت آب و ہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہ کن آفات کا مشاہدہ کر چکا ہے اور دانشمندی اِسی میں ہے کہ ماحولیاتی تنوع (توازن) بحال کرنے کو خاطرخواہ توجہ (اہمیت) دی جائے۔