پی ایس ایل کا حالیہ ایڈیشن ہر طرح سے کامیا ب اور پہلے سے زیادہ مقبول ہے، عالمی میڈیا میں بھی اسے مکمل کوریج مل رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لیگ ایک ایسے مستحکم برانڈ کی شکل اختیار کر گئی ہے کہ جو ایک منافع بخش صنعت میں بن گئی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک ایسی لیگ ہے جس میں بڑے نام تو شامل ہیں ہی، ساتھ ہی ایسے نئے چہرے بھی ہیں جو آنے والے وقتوں کے سپر سٹار ثابت ہوسکتے ہیں۔اس وقت ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں پی ایس ایل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،ایک بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اگرچہ فرنچائز کرکٹ زیادہ تر توجہ بڑے ناموں اور مقبول چہروں پہ ہی مرکوز رکھتی ہے اور یوں اپنا بیشتر سرمایہ بھی شائقین کو ریجھانے میں جھونک دیتی ہے مگر کیا فرنچائز کرکٹ واقعی صرف مقبول چہروں کے بل پہ چلائی جا سکتی ہے؟ پی ایس ایل میں یہ فارمولا غلط اگر نہیں تو کچھ تبدیل شدہ ضرور ہے۔ یہاں پر ایک وقت میں اگر کسی بڑے سپر سٹار نے میچ کا پانسہ پلٹا ہے تو اگلے مرحلے میں کسی گم نام کھلاڑی نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔پی ایس ایل کی بنیادی شناخت اس کے کھیل کا مسابقتی معیار ہے۔ گزشتہ روز کھیلے گئے پہلے میچ میں شاہین شاہ آفریدی کے دوسرے سپیل نے بازی پلٹی اور پھر زمان خان نے ہمیشہ کی طرح آخری اوور کے سنسنی خیز لمحات میں اعصاب کی جنگ جیت کر ایک رن کی فتح سے اپنے ٹائٹل کے دفاع کا آغاز کیا۔دوسرے میچ میں ٹام کوہلر کیڈمور سب پہ حاوی ہو گئے اور دو رنز کے حقیر مارجن سے ایک اور سنسنی خیز فتح نے پی ایس ایل کی آمد کا ڈنکا بجا دیا۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پی ایس ایل کی وہ مقبول ٹیم ہے کہ جسے ہر وینیو پہ ہوم کراؤڈ میسر آ جاتا ہے مگر سرفراز احمد تاحال اپنے حتمی گیارہ کھلاڑی ہی طے نہیں کر پائے۔کراچی کنگز کا بھی المیہ کچھ ایسا ہی ہے کہ بڑے ناموں اور لیجنڈری بیک روم سٹاف دامن میں ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ سمیٹ نہیں پا رہی۔بلاشبہ فرنچائز کرکٹ ستاروں کے بل پہ ہی پھلتی پھولتی ہے مگر بسا اوقات کچھ فرنچائزز اپنا دامن اس قدر لبریز کر بیٹھتی ہیں کہ وہ اپنے ہی ستاروں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتی ہیں۔ جب تمام تر توجہ ستاروں کو ایڈجسٹ کرنے میں ہی بٹ جائے تو کھیل کے تکنیکی گوشے اکثر تشنہ جواب رہ جاتے ہیں۔جبکہ تکنیکی گوشوں پہ مضبوط گرفت ہی درحقیقت کسی فرنچائز کی کامیابی کی ضمانت ہو سکتی ہے۔ جو ڈریسنگ روم بڑے ناموں اور عظیم چہروں پہ مشتمل نظر آتے ہیں، وہ تاحال ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے مزاج سے کلی طور پہ شناسا دکھائی نہیں دیتے۔یہاں کئی ایسے لیجنڈز موجود ہیں جو دو دہائیوں کا سفر طے کر چکنے کے باوجود ابھی تک ٹی ٹوئنٹی کو ون ڈے فارمیٹ کی ہی کوئی مختصر شکل سمجھتے چلے آ رہے ہیں۔ون ڈے میں بہرحال ڈیٹا پہ انحصار اور مہارت کے اظہار میں ایک لطیف سا توازن برقرار رہتا ہے مگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ڈیٹا اکثر عظیم اذہان کو بھی مات کر جاتا ہے۔اگرچہ سینکڑوں مواقع میں ایک آدھ بار کوئی مارٹن گپٹل ایک ہی اوور میں تیس رنز بٹور کر تمام تر ڈیٹا کا منھ بھی چڑا سکتا ہے مگر وسیع تر زاویہ نگاہ سے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ دراصل ڈیٹا کی حکمرانی کا اعلان ہے۔جو ڈریسنگ روم ڈیٹا کے بل پہ جوڑے گئے ہیں، وہاں فتوحات اور تسلسل کا تناسب ان ڈریسنگ رومز سے کہیں زیادہ ہے جو محض بڑے بڑے ناموں اور فین کلبز کی خوشنودی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اکٹھے کیے گئے ہیں۔ ملتان سلطانز کو ہی دیکھ لیجیے۔ڈرافٹ کے وقت سلطانز کا فاسٹ باؤلنگ ڈیپارٹمنٹ خاصا بے کیف سا دکھائی دیتا تھا اور پھر اکلوتے سٹار شاہنواز دھانی کی خدمات سے محرومی کے بعد تو خدشات زور پکڑ رہے تھے کہ یہی شعبہ سلطانز کا نازک پہلو ثابت ہو گا۔ مگر ان خدشات کے جواب ڈیٹا کی بنیاد پہ چنے گئے، ستاروں سے محروم، فاسٹ باؤلنگ سکواڈ نے ثابت کیا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ محض چہروں کی بنیاد پہ نہیں کھیلی جا سکتی۔عین ممکن ہے کہ کوئی مستقبل کا لیجنڈ ابھی بھی خود کو مستقل ریٹائرمنٹ پہ آمادہ کرنے سے معذور ہو اور متعلقہ فرنچائز بھی گوناگوں وجوہات کی بنا پہ اس کا سارا بوجھ اٹھانے کو دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھی ہو مگر اس فراخ دلی کا خراج صرف الیون کے باقی ماندہ کھلاڑیوں ہی نہیں، خود فرنچائز کو بھی چکانا پڑتا ہے۔اگر فرنچائز مالکان ہر سیزن کے بعد پی سی بی سے ریونیو ماڈل پہ جھگڑوں اور سیزن کے بیچ اپنی شخصیتوں کو کرکٹ سے بھی زیادہ مقبول سمجھنے کے واہمے سے نکل پائیں تو یقینا یہ سمجھ پانا ایسا بھی دشوار نہیں کہ ٹی ٹوئنٹی میں جیت کے لیے کرکٹ کے ساتھ ساتھ حساب کتاب پہ عبور بھی لازم ہے۔یہاں فقط مہارت ہی کافی نہیں ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اب چہروں کی کرکٹ نہیں ہے۔ یہاں پر جو بھی اس کھیل کے مزاج اور تقاضوں کو سمجھے گا وہ کامیاب رہے گا اوراب تک کھیلے گئے میچوں میں یہ ثابت ہوگیاہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے ٹیلنٹ کی کمی نہیں اورہر میچ میں ایسے کھلاڑی سامنے آرہے ہیں کہ مستقبل میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ایڈیشن کے دوران ایک اور چیز جو کھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ تاثر کا خاتمہ ہے کہ پاکستان میں محض اچھے تیز باؤلر ہی سامنے آتے ہیں۔ بلکہ اس ایڈیشن میں اچھے باؤلرز کے ساتھ ساتھ کئی بہترین بیٹسمین بھی سامنے آئے ہیں جن میں صائم ایوب کا نام قابل ذکر ہے۔