سیاست نظام حکومت ہی کا دوسر ا نام ہے لغت میں سیاست کے معنی حکومت چلانا اور لوگوں کی امرونہی کے ذریعہ اصلاح کرناہے جبکہ اصطلاح میں فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے فریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں لیکن آج اس لفظ کے معنی بدل چکے ہیں‘ آپ خودروزمرہ زندگی میں دیکھ چکے ہوں گے کہ جب کہیں دو لوگوں کاآپس میں کوئی تنازعہ پیدا ہوتاہے اور ایک دوسرے کو دھوکادینے اور ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل جھوٹ بولنے کی روش اختیار کی جاتی ہے تو پھر الزام لگتاہے کہ یہ میرے ساتھ سیاست کررہاہے پھر اگر ہم اپنے اہل سیاست کی بات کریں تو جس طرح ایک دوسرے کو زیرکرنے میں مصروف ہیں تو ان کیلئے باہر سے کسی دشمن کی کوئی ضرورت ہی نہیں یہ بھی خوب طرز سیاست ہے کہ جب کوئی مخالف کسی مشکل میں پھنس جاتاہے تو پھرپھبتیا ں کسی جاتی ہیں جب کوئی طالع آزما آکر حکومت وقت کادھڑن تختہ کردیتاہے تو پھر مخالف اہل سیاست دادوتحسین کے ڈونگرے برسانے لگ جاتے ہیں وطن عزیز کی سیاست کسی بھی دور میں درخشاں روایات قائم نہیں کرسکی ہے قیام پاکستان کے بعد جب بانی پاکستان کاانتقال ہوا تو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی ایما پر مسلم لیگ کے آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے حکومتی اور جماعتی عہدے ساتھ رکھنے کی شق دوبارہ شامل کروادی گئی جو خود قائداعظم محمد علی جناح نے گورنرجنرل بننے کے بعد ختم کروائی تھی 1951میں لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ ہی میوزیکل چیئر کاکھیل شروع ہوا پھرتو ہم نے محض سات سال میں آد ھ درجن وزرائے اعظم بھگتائے ایک صاحب کو تو محض دو مہینے ہی نصیب ہوسکے اسی لئے تو پھر جب مارشل لاء لگا تو قوم نے شکر ادا کیا اہل سیاست نے ماضی سے کبھی سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اسی لئے تو ہمارے ہاں سیاست تیزی سے روبہ زوال ہوچکی ہے اس وقت حالت یہ ہے کہ سیاسی مخالفین اپنااپنا الو سیدھا کرنے کیلئے تمام اداروں کو سیاست زدہ کرنے میں مصروف ہیں جب سے الیکٹرانک میڈیا کا دورشروع ہواہے پریس کانفرنسیں تفریح طبع کاذریعہ بن گئی ہیں چنانچہ ہر روز درجنوں پر یس کانفرنسیں ہوتی ہیں جن میں اپنے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ریاستی اداروں کو رگیداجاتاہے پھر ہمارے صاحبان سیاست کے الفاظ پڑوسی ملک
کامیڈ یا باربار دکھاکرہمارے ریاستی اداروں کو شرمندگی سے دوچار کرنے میں لگ جاتاہے کسی بھی سیاسی جماعت کادوسرے اورتیسرے درجہ کا رہنمانچا(رہنماکی چھوٹی شکل)بھی ہاتھ اٹھااٹھاکر بھنویں سکیڑ سکیڑ کر ریاستی اداروں کو لیکچر دیتا ہے تو پھر قوم کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ جھوٹ کہاں سے شروع او رسچ کہاں پر ختم ہوتاہے اس وقت اگردیکھاجائے تو اہل سیاست نے پارلیمان یعنی مقننہ کو تو مذاق بنایاہی ہواہے ساتھ اب عدلیہ اور انتظامیہ کے پیچھے بھی پڑے ہوئے ہیں اہل سیاست کی نالائقی کا اس سے بڑا ثبوت اورکیاہوگا کہ جو معاملات پارلیمان میں طے ہونے چاہئیں یا پھر باہمی مکالمے کے ذریعہ جن مسائل کاحل تلاش کرناچاہئے وہ بھی عدلیہ کے پاس لے جائے جارہے ہیں جس ملک میں یہ پتہ ہی نہ ہوکہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعدالیکشن کی تاریخ دیناکس کی ذمہ داری ہے اس ملک کے پارلیمانی مستقبل پر فاتحہ خوانی ہی کی جانی چاہئے چند روز کے بیانات کانچوڑ یہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کااختیار نہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے نہ ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں گویااگر گورنر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کیلئے تاریخ نہ دیں تو پھر کسی کے پاس ہی یہ اختیار نہیں یعنی پھر متعلقہ صوبے الیکشن سے محروم ہی رہیں گے سیاسی رہنماؤں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ہی یہ معاملہ بھی اس وقت اعلیٰ عدالتو ں میں زیر سماعت ہے مگر بات اگریہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا اب ہرجماعت اپنی مرضی کے جج اور بینچ چاہتی ہے یہ روایت اگر جڑ پکڑ گئی تو پھر مستقبل میں جو ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوسکتی ہے اس کے تصورسے ہی خوف آناچاہئے مرضی کے ججوں سے فیصلے کرانے کی خواہش کے ساتھ ہی پھر دیگر منصفین کرام کے خلاف مہم شروع ہوجاتی ہے اور اس سے کسی بھی سیاسی جماعت کادامن پاک نہیں
عدلیہ تو امتحان میں تھی ہی اب تو انتظامیہ کو بھی رگڑادیاجانے لگاہے جس کی مثا ل غلام محمدڈ وگر کیس میں سامنے آچکی ہے سی سی پی اولاہور کے تبادلے میں حکومتی بدنیتی ثابت ہوچکی ہے اسیلئے تو پھرعدالت عظمیٰ کی مداخلت پر ان کے تبادلے کااعلامیہ واپس لیاجارہاہے اسی قسم کی صورت حال ہمارے صوبے میں سامنے آرہی ہے جہاں اس وقت نگران حکومت کے نام پر ایک سیاسی حکومت برسر اقتدارہے جس میں سوائے پی ٹی آئی اور جے آئی کے باقی تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے اس حکومت نے چندروزقبل تبادلوں کاایک جھکڑ چلایا جس میں درجنوں افسران کو ادھر ادھر کیاگیا مگر جب اس سے بھی دل نہ بھرا تو بعض مخصوص افسران کے پیچھے پھر لٹھ لیکر میدان میں نکل آئے پانچ دن کے مسلسل دباؤ کے بعد ان مخصوص افسران میں بعض کو دوبارہ تبدیل اور بعض کو اوایس ڈی بنادیا گیا ان افسران پریہ الزامات تھے کہ سابق دور حکومت میں انہوں نے صوبائی حکومت کے احکامات پر من وعن عملدر آمدکیاتھا گویا طے یہ ہواکہ اب سرکاری افسران صوبائی حکومت کے احکامات پرمن وعن عملدر آمد کرنے کے بجائے پسند وناپسند کے مطابق ہی چلیں توٹھیک وگرنہ پھر مستقبل میں ان کو اس کے نتائج کیلئے تیار رہناچاہئے پہلے مرحلہ کے تبادلوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھاکہ یہ روایت رہی ہے کہ نگران حکومت (بشرطیکہ وہ مکمل غیر جانبدار ہو)سابق حکومت کے لگائے گئے تمام افسران کو اس لئے تبدیل کروادیتی ہے کہ کل کو کوئی اعتراض نہ کرسکے کہ ان افسران نے اپنے سابق باسز کو کوئی فائدہ پہنچایا ہے مگر ان تبادلوں کی دوسری قسط نے افسران میں بددلی پھیلادی ہے افسران پر کوئی اعتراض تھا تو پہلے مرحلہ میں توتبادلے ہوگئے تھے دوسرے مرحلہ کے تبادلے کامطلب توکچھ اورہی لیاجارہاہے اس وقت اعظم خان کی سربراہی میں نگران حکومت قائم ہے جو خود بھی ایک سینئر بیوروکریٹ رہے ہیں اب ان کافرض بنتاہے کہ وہ سرکاری معاملات میں اس قسم کی مداخلتوں کاراستہ روکیں وگرنہ اس فیصلے سے تو افسران کو پیغام مل گیاہے کہ ریاست کے بجائے اہل سیاست کے ساتھ وفادار ی ہونی چاہئے اس قسم کے فیصلوں کے آفٹرشاکس ہمارے سسٹم کیلئے ترکی کے حالیہ زلزلے سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں تمام اہل سیاست کو اس حوالہ سے ضرور سوچناچاہئے۔